فاٹا کا انتظامی مستقبل

فاٹا کے سیاسی اور انتظامی مستقبل کے حوالے سے آجکل جو بحث چل رہی ہے وہ ہمارے قبائلی نوجوان نسل کی شعوری اور سیاسی بیداری کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نوجوانوں کو صحیح اور درست سمت پر ڈالا جائے، نہ کہ اپنا ذاتی اور سیاسی الو سیدھا کرنے کے لئے ان کو استعمال کیا جائے۔
فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے تین رائے اور لائحہ عمل زیر غور ہیں۔ پہلا(جس کو بادی النظر میں میڈیا، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی سند قبولیت حاصل ہے) فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہے۔ دوسرا (جو غالباََ صرف جے۔یو۔آئی یا مولانا کی خواہش ہے) ایک الگ صوبے کا قیام ہے۔تیسرا اچکزئی صاحب کی خواہش کے مطابق گلگت بلتستان کے طرز کی اکائی کا قیام ہے۔
عمومی طور پر یہ تصور کیا جاتا رہا ہے کہ انضمام ہی سب سے آسان اور فی الفور حل ہو سکتا ہے۔ اس تحریک کے روح رواں باجوڑ سے شہاب الدین خان، خیبر ایجنسی سے ملک شاہ جی گل آفریدی اور اورکزئی ایجنسی سے ساجد خان طوری صاحبان ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہیں، اس لئے ان کو قبائل کے انضمام کا حق حاصل ہے۔
تاہم اگر اس اصول کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم کرنا پڑے گا کہ فاٹا کے باقی منتخب نمائندہ گان کیا رائے رکھتے ہیں۔ کیونکہ شاہ جی گل صاحب کو وزیرستان کا فیصلہ کرنے اور شہاب الدین خان کو مہمند کا فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ۲۰۱۳ کے الیکشن جن حالات میں ہوئے تھے وہ سب کو معلوم ہیں۔ فاٹا میں ٹرن آوٹ کتنا تھا؟ اور جو نمائندے جیتے تھے وہ کتنے مارجن سے جیتے تھے؟ یا یہ کہ جو نمائندے آج سارے قبائل کی آواز بنے ہوئے ہیں کیا انہوں نے بالکل صاف اور شفاف الیکشن لڑا اور جیتا؟
فاٹا والے دوست اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولنگ سٹیشنوں کا قیام کونسی جگہوں پر ہوا تھا؟ بہرکیف ہم مان لیتے ہیں کہ تب ایک تو آبادی کا بھی مسئلہ تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ خیل بھی کچھ خاص لوگوں کے لئے اہمیت رکھتے تھے۔ اس پر اگر کسی امیدوار کے، ہیڈکوارٹر میں موجود کرنل صاحب کے ساتھ علیک سلیک تھی تو اس کی قسمت کا چمک اٹھنا بعید نہیں تھا۔شہاب الدین خان بھی ان ہی خوش قسمتوں میں سےتھے۔ یہاں تک کہ کچھ پولنگ سٹیشنوں سے بلٹ بکس ہیڈ کوارٹر لے جا کر گنتی کی گئی تھی۔بہرحال یہ لاحاصل بحث ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کوئی بھی اکیلے اپنے آپ کوسارے قبائل کا نمائندہ نہ سمجھے۔ سب سے پہلے سارے قبائلی منتخب نمائندوں کو ایک ہی فلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا اور مستقبل کے لئے ایک مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنا پڑے گا۔ اگر تو یہ ۲۰ بندے ایک دوسرے کو قائل نہیں کر سکتے، دوسرے لوگوں کی ہم ان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔
رہی خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی بات، تو یہ ایک فی الفور اور آسان حل تو ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ سب سے بہتر حل بھی ہو۔ مثال کے طور پر انضمام کے ساتھ یہ ہو جائے گا کہ لوگ ایف سی آر کے کالے قانون سے چٹکارا حاصل کر لیں گے۔ اور ان کو کچھ نا کچھ آئینی حقوق مل جائیں گے(گو کہ بنیادی انسانی حقوق کم ہی حاصل ہوں گے، کیونکہ وہ تو ابھی تک ریاست کے مختلف اداروں کے لئے “نامعلوم” ہی ہیں)۔ اگر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پھر ہمیں ریاستی ادارے تنگ نہیں کریں گے اور وہ اپنے آپ کا پوچھ سکیں گے۔ تو یہ صرف ایک خوشگوار خواب ہی ہو سکتا ہے۔ بلوچستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تاہم اتنا فائدہ شاید ہو جائے کہ کسی گنہگار کے ساتھ دوسرے بے گناہوں کو نہیں رگڑا جائے گا۔ ویسے اتنا کچھ تو ان کو اپنے الگ صوبے میں بھی مل جائے گا۔
میرے خیال میں ایک الگ صوبے میں سوائے اس کے کہ ایک پھیلی ہوئی چوڑی پٹی میں آمدورفت کے لئے کوئی رابطہ سڑک نہیں کوئی اور بڑا مسئلہ نہیں۔ ویسے یہ تو جب مغربی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا تو کیا کوئی رابطہ سڑک تھی دونوں دھڑوں کے درمیان؟ اور ہاں آج بھی اگر کوئی پشاور سے ایبٹ آباد یا مانسہرہ جاتا ہے تو کہاں سے ہو کے جانا پڑتا ہے؟
اگر مرکز پہ جھگڑہ ہے، تو جب کوئی پشاورآ جا سکتا تھا تو اب اس کے نزدیک کوئی بھی جگہ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
معاشی طور پر چونکہ کے پی خود اتنا مستحکم نہیں اس لئے وہ شاید انضمام کے بعد فاٹا کو زیادہ توجہ نا دے سکے۔ویسے بھی پنجاب میں جیسے سارے فنڈز لاہور کے لئے مختص ہوتے ہیں، کے پی میں پشاور، صوابی اور مردان بازی لے جاتے ہیں۔ اب ایسے حالات میں باجوڑ اور وزیرستان والے اپنے آپ کو نہیں کوسیں گے تو اور کیا کریں گے۔ اس کے برعکس ایک الگ صوبے میں معاشی اختیار صوبے کے اپنے لوگوں کے ہاتھوں میں رہے گا۔ ان کی اپنے اسمبلی ہی فنڈز کی جمع خرچ کا فیصلہ کرے گی۔
اگر انضمام ہوجائے تو،سیاسی طور پر فاٹا کے منتخب نمائندے جیسے اب بے زبان ہیں تب بھی ہونگے۔ نا تو اسمبلی کے فلور پر ان کی کوئی شنوائی ہوگی اور نا ہی کسی اور فلور پر۔ تاہم اگر الگ صوبہ بنتا ہے تو اسمبلی میں ان کی الگ شناخت بن جائے گی۔ اور سب سے زیادہ فائدہ سینٹ میں ہوگا۔ جس کے مطابق وہ وفاق میں دوسری اکائیوں کے برابر ہوں گے۔ اس سے بڑی حد تک پنجاب کی اجارہ داری بھی ختم ہو جائے گی۔
بہرحال جو بھی ہے فیصلہ قبائلی عوام نے ہی کرنا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو اچھے طریقے سے اس مسئلے کے سب ممکنہ حل بتائے جائیں۔ ان کو بتایا اور سمجھایا جائے کہ ان کے لئے فی الفور حل اچھا رہے گا یا تادیر حل۔
باقی اختلاف رائے رکھنا ہر کسی کا حق ہے۔ اگر مولانا صاحب یا اچکزئی صاحب اسی مسئلے پر اپنا الگ موقف رکھتے ہیں تو اس میں بھی قبائل کی ہی بھلائی ہے۔ جیسا کہ قومیں اپنے فیصلے جذبات سے نہیں بلکہ سوچ و بچار سے کرتی ہیں۔اس لئے ان کے اختلاف سے اس مسئلے کے مختلف پہلوں عوام پر آشکارا ہوتے جائیں گے۔ اور میرے خیال میں اگر مولانا یا اچکزئی صیب ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟ اس پر کچھ یار دوستوں کا کہنا ہے کہ ابھی تو قبائلی عوام دربدر ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کسی کوبھی اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت نہیں تو ریفرنڈم کیسے؟
ارے بھائی لوگوں اگر ایسا ہی ہے تو کیوں نا پہلے ایک تحریک قبائلوں کی آبادکاری کے لئے ہی چلا لیتے ہیں۔ ایک درنا قبائلوں کے ایف۔۱۶ کی بمباری سے تباہ حال گھروں کے بنانے کے لئے دے دیتے ہیں۔ جب قبائلی دوبارہ آباد ہو جایئں گے تب ریفرنڈم بھی ہو جائے گا اور جرگہ بھی۔ اور پھر ان کے لئے کوئی ملک یا خان فیصلہ نہیں کرے گا۔وہ اپنا فیصلہ خود کر سکیں گے۔

Facebook Comments

واجد محمود خٹک
سیاسیات کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply