ابو جان میں آپ کو نہیں بچا پایا/منصور مانی

11 جولائی 2016 ، رات کوئی تین بجے کا پہر تھا، یہ وہ پَل تھے جب ابو اور میں نے اُن کی زندگی کی اُمید چھوڑ دی تھی، کارڈیو کے خنک ماحول میں ہم دونوں کو اب بس موت کا انتظار تھا جو کسی بھی پل کوئی لمحے آیا چاہتی تھی۔ ابو وینٹی لیٹر پر تھے،اور میں انتظار میں!

زندگی میں ہم نے کئی انتظار ساتھ کاٹے تھے، ابو کو اہسپتال میں 27  دن ہو چکے تھے ،عید گزر چکی تھی،بڑا بیٹا دیار غیر میں تھا اس کا انتظار نا امید کر چکا تھا ابو کئی بار بہل کر سمجھ چکے تھے کہ وہ نہیں آ سکے گا اب وہ ناراضی اور منانے کی سرحد سے آگے تھے، اب بس انتظار تھا موت کے اس پل کا جس نے شیشے کے دروازے سے داخل ہونا تھا۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے جذبات میں سفاک ہو چکے تھے۔

مجھے امی جان کی فکر تھی ،مجھے ان کا ڈر تھا ،وہ میری زندگی تھیں اور ان کی زندگی ابو، ہم دونوں کی زندگی ہی وفا نہ کر سکی!

ابو بے زار تھے چھ فٹ کی کاٹھی کا وجود بے بسی کی تصویر بنا بستر مرگ پر درجن بھر مشینوں کے ساتھ سانس لے رہا تھا ،غصہ کر رہا تھا، وہ مرنا نہیں چاہتے تھے، انہیں زندگی سے محبت تھی اور مجھے امی سے،امی جو ہم سے دور گھر میں مجسم دعا بنی ہوئی تھیں!

ہم سب الگ الگ اپنے اپنے مدار میں انتظار کی سولی پر لٹک رہے تھے، ماں کو امید تھی انتظار تھا کہ کب میں اپنے باپ کو صحت کے ساتھ گھر لاتا ہوں، لیکن ان سب سے الگ میرا اور ابو کا انتظار تھا۔۔!

11 جولائی کی صبح ہو چکی تھی ، ہم دونوں کا انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا ، ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کیا میں کچھ دیر کے لیے بابا کا وینٹی لیٹر ہٹاؤں، ہم انھیں سی پائپ پر رکھیں گے شاید یہ خود سے سانس لینے میں کامیاب ہو جائیں، اُمید لیکن کم ہے، میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور کہا دیکھیں شاید، ڈاکٹر نے ابو کو ہوش میں لانے کی تیاری کی، ابو ہوش میں آ گئے ڈاکٹر نے جانے کون سی مشین کون سا پائپ یا ماسک ابو کے لگا دیا ،اب ابو کو اسّی فیصدآکسیجن مشین دے رہی تھی اور بیس فیصد ابو خود کوشش کر رہے تھے، ابو کا سینہ بہت تیزی سے اوپر نیچے ہو رہا تھا سامنے مانیٹر پر ہندسے تیزی سے گردش کر رہے تھے ابو نے میرے ہاتھ کو اپنی کمزور سی گرفت میں لیا ہو تھا، وہ کچھ بول رہے تھے لیکن ماسک اور چیزیں لگے ہونےکی وجہ سے ان کے الفاظ مجھے سمجھ نہیں آ رہے تھے ہاں لیکن ان کی آنکھوں میں اترتی ویرانی مجھے محسوس ہو رہی تھی ابو کی آنکھوں سےآنسو رک رک کر نکل رہے تھے اور میری آنکھوں سے آنسو رک نہیں رہے تھے!

باپ بیٹا خاموش تھے آنکھیں ویران تھیں، لیکن ہمارے آنسو باتیں کر رہے تھے، ابو کو کسی کی فکر نہیں تھی ابو جانتے تھے وہ مر جائیں گے ان کی اولاد یہ صدمہ جھیل جائے گی، اولاد اپنے اپنے گھر بار کی ہے کچھ دن میں صبر آ جائے گا، میں جان رہا تھا ، ابو کے آنسو رک رک کر نکل رہے تھے انہیں صرف امی کی فکر تھی، ان کا ہر آنسو ان کے گال پر تھوڑی دیر کے لیے رکتا اور پھر نیچے ڈھلک جاتا، وہ بس صرف ایک ہی بات کہہ رہے تھے نصرت، نصرت، نصرت، میرے آنسو رک نہیں رہے تھے ، میں ان کی آنکھوں میں دیکھ کر بس صرف ایک ہی لفظ کی گردان کیے جا رہا تھا امی، امی، امی، ہم دونوں کے آنسوؤں کا محور ایک ہی ذات تھی، ہم جانتے تھے وہ یہ صدمہ جھیل نہیں پائیں گی، میں نے ابو کا ہاتھ سختی سے تھاما ہوا تھا ڈاکٹر ہر تھوڑی دیر بعد چکر لگاتا لیکن کچھ کہے بِنا لوٹ جاتا، پھر میں نے اپنے لب کھولے اور کہا ابو مجھے معاف کر دیں میں آپ کو نہیں بچا پایا، میں آپ کو امی کے پاس نہیں لے جا سکا، مجھے معاف کر دیں ان سب کے لیے جو میں آپ کے لیے نہیں کر سکا، ابو کی نا اُمید اور ویران آنکھیں مجھ پر ٹکی تھیں، آنسو رُک چکے تھے،باپ بیٹا یہ بازی ہار چُکے تھے!

ابو آپ نے ایک بھر پور زندگی گزاری، بس شاید  اللہ کو آپ کی زندگی یہاں تک ہی منظور تھی، یہ وہ الفاظ تھے جو میں کہہ نہیں سکا لیکن ابو نے محسوس کر لیے، ابو کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو رواں تھے لیکن اب رک نہیں رہے تھے ، میری آنکھیں خشک تھیں ویران تھیں ، باپ بیٹا اب اس موت پر بین کر رہے تھے جس نے آنا تھا۔۔

مانیٹر پر ہندسے اب تیز آواز کر رہے تھے ، ڈاکٹر پاس آیا اور کہا یہ خود سے سانس نہیں لے پا رہے، اور پھر ابو کو دوبارہ وینٹی لیٹر پر شفٹ کر دیا گیا۔

میں باہر فٹ پاتھ پر آ کر بیٹھ گیا ، دوپہر تک ابو کی طبعیت بہتر ہوئی، لوگ دیکھنے آتے رہے لیکن میں اور ابو ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملا رہے تھے ابو جانتے تھے وہ اب مر جائیں گے اور میں جانتا تھا میں انہیں نہیں بچا سکتا!

12 جولائی،
ابو کو دیکھنے گھر سے سب آئے ، ابو کی طبعیت دو بار خراب ہوئی، شام میں سب چلے گئے ،میں پورے اسپتال میں چکرا رہا تھا، فون پر سب سے بات کر رہا تھا،پھر ابو کے پاس گیا، ابو ہوش میں تھے وینٹی لیٹر لگاہوا تھا، میں نے ابو کو کہا اچھے سے سانس لیں ، انابیہ کو لے کر آؤں گا ۔۔ابو مسکرائے، میں نے کہا گھر چلیں گے، ابو نے ہاتھ اوپر کر کے اشارہ کیا اللہ، میں نے کہا ۔۔درود پاک پڑھیں ۔۔ابو نے اپنی کمزور انگلیوں پر درود پڑھنا شروع کر دیا، میں نیچے آ گیا۔۔۔

مجھے نیچے آئے دس منٹ گزرے تھے کہ آئی سی یو سے کال آئی، میں بھاگ کر آئی سی یو پہنچا،
آئی سی یو کے گیٹ سے میں نے دیکھا ابو کے گرد بہت لوگ جمع تھے، کوئی ان کے دل کو اپنے ہاتھوں سے پمپ کر رہا تھا اور کوئی کچھ۔۔ مگر میری نظریں اس اسکرین پر تھیں جس پر ایک صفر بنا آ رہا تھا اور سیدھی لائن۔۔ میرے قدم وہیں رک گئے اور شاید دل بھی!
باپ بیٹے کا انتظار ختم ہو چکا تھا!

سرجن حفیظ نے مجھے دیکھ لیا اور وہ میرے قریب آئے اور کہا آپ کے ساتھ کوئی ہے، میں نے کہا نہیں،
اس نے کہا ۔۔ان کا انتقال ہو گیا ہے، اور یہ کہہ کر اس نے مجھے گلے لگایا، میں آئی سی یو سے باہر آ گیا، گیٹ پر موجود گارڈ نے مجھے گلے لگایا اور کہا بھائی صبر کرو۔۔

میں نیچے آگیا، اپنے بہنوئی کو فون کیا ، گھر فون کیا، میرا فون بیٹری کم ہونے کی وجہ سے ایک دم بند ہو گیا، اور میرا دل بھی اس کے ساتھ ہی بند ہوگیا!

آئی سی یو میں ابو مر چکے تھے اور میں نیچے بیٹھا خالی آنکھوں سے لوگوں کو دیکھ رہا تھا، لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے۔۔۔

کب میری بہن آئی کب گھر والے ،مجھے نہیں معلوم ، کب ہم ابو کو لے کر گئے اور کب ان کو دفنایا، میں بس دیکھتا رہا، ابو چلے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امی ابو کا صدمہ زیادہ عرصے نہیں جھیل پائیں، اور عدت کے دوران ہی اللہ کو پیاری ہو گئیں، میرے آنسو جو ابو کی موت پر خشک ہو چکے تھے اب رکتے ہی نہیں، آنکھیں نم ہی رہتی ہیں!
کائی سی جم گئی ہے آنکھوں پر
سار ا منظر ہرا سا رہتا ہے!
یوم وفات ڈاکٹر مقصود احمد خان 12جولائی 2016

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply