شعری مجموعہ “محبت ہو ہی جاتی ہے” کا اجمالی جائزہ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

جذبات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ قلمی اظہار ہے۔ جس کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب انسان کسی بات کا دل کی خوردبین سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ شعر و سخن سے شغف رکھنے والوں نے ہمیشہ قلم کا سہارا لیا ہے جو ان کے ذوق کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔وہ اپنے جذبات و احساسات کو زندہ رکھنے کے لیے انہیں صفہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔ بات شعری صنف میں ڈھالنی ہو یا نثر نگاری کے سانچے میں اسے پیش کرنے کے لئے اسلوب اور اصول اس کی شان میں اضافہ کرتا ہے۔بات کہنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں لیکن جس بات کو ادبی شان کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا جائے وہ اپنی تاثیر میں قلب و ذہن پر اثر انگیزی کے نقوش چھوڑ تی ہے۔ جیسے تعلیم و تربیت کا آپس میں گہرا رشتہ ہے اسی طرح علم و ادب کی بھی اپنی چاشنی ہوتی ہے جو ذوق مطالعہ کا لطف فراہم کرتی ہے۔
دنیا میں ہر انسان کی اپنی ترجیحات وکیفیات ہیں جو اس کے اندر احساسات کا دیا جلا کر شمع روشن کرنے پر مجبور کرتا ہے۔بے شک لکھنا ایک فطری تجسس ہے اور جب تک اس کو جلا نہ ملے۔ یہ اس وقت تک اپنی قدر و قیمت ظاہر نہیں کرتا۔
یہ قانون قدرت ہے آپ جتنا زیادہ فطری رعنائیوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں گے آپ کا تخیل اتنا ہی بلند پرواز ہوگا۔اس کی پرواز آسمان کی حدوں کو چھوئے گی۔ وہ دوسروں کو نظر آئے گا۔لوگ اس کے فن کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔کیونکہ تعبیر و تفسیر کا راز محنت اور خدا کے منصوبے میں شامل ہوتا ہے۔
محبت ہر انسان کے خون میں موجود ہے جو اسے بہترین انسان ہونے کا شرف دیتی ہے۔یوں کہہ لیجئے یہ خدا کی ودیعت اور انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر جینے کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔
یہ انسانی فطرت کا خوبصورت شگوفہ ہے جس کی مرہون منت تصورات کا جنم ، رشتوں کا تقدس ، باہمی میل جول ، بھائی چارے کی فضا اور تعلقات و روابط کا دروازہ کھلتا ہے۔بلاشبہ محبت مقناطیسی قوت و کشش جیسی خوبیوں سے مزین ہوتی ہے۔کسی کو متوجہ کر لینا یا کسی کی توجہ کا مرکز بن جانا اس عنصر کا خوبصورت ہنر ہے۔
انسانی زندگی کے سب سے قیمتی اور خوبصورت وہ لمحات ہوتے ہیں جب اس کے دل کے دروازہ پر محبت دستک دیتی ہے۔ اس کی شخصیت اس وقت اور زیادہ پرکشش اور روشن خیال پہلوؤں سے آراستہ ہو جاتی ہے خصوصا جب استعداد قبولیت کسی تحریک کو جنم دیتی ہے۔
قیصر ساگر کا شعری مجموعہ” محبت ہو ہی جاتی ہے” پڑھنے کے بعد قلمی تاثرات کا اظہار میرے فرض میں شامل ہوگیا۔ میں کتاب پڑھنے کے بعد من و عن اظہار کرنا اپنا ادبی فرض سمجھتا ہوں۔کتاب میں غزلیات اور نثری نظمیں شامل ہیں جو اس کے جذبات کی بہترین ترجمانی کرتی ہیں۔انہوں نے اپنی غزلیات میں محبت کو خوب گنگنا کر اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ محبت میرا موسم ہے۔
ٹائٹل پر لکھے ہوئے چند اشعار ان کے فکری شعور کے ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
نگاہیں مل ہی جاتی ہیں
یہ راہیں مل ہی جاتی ہیں

یہ تقدیروں کے بند ھن ہیں
یہ بندھن بند ھ ہی جاتے ہیں

بدن اور روح کے رشتے
یہ رشتے جڑ ہی جاتے ہیں

چھپائیں لاکھ اس کو ہم
یہ ظاہر ہو ہی جاتی ہے

ان کا کلام غزل کی آبرو کا بہترین مترجم ہے۔
وہ خالق کائنات کی دی ہوئی زبان کو اشعار کی زینت بنانا جانتے ہیں۔ وہ روایت کا آنچل محبت کی زبان میں سجاتے ہیں۔خواب، محبت ، حسن ،ادا ، وفا ،تقدیر، اشک ، اقرار ، غزلوں کے حسن کو اس طرح دوبالا کرتا ہے۔ان کا یہ شعر غور طلب ہے۔

جرم الفت کی وہ خود کو بھی سزا دیتے ہیں
روز پلکوں پہ میرے اشک سجا دیتے ہیں

ان کی روح میں محبت کی فضا کا عالم ہے۔وہ ہمیشہ جذبات اس وقت پروان چڑھاتے ہیں جب ان کے اندر سے جذبات کا لاوا پھٹتا ہے۔مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ ایک پل بھی محبت سے روٹھنا نہیں چاہتے۔ان کی غزلوں اور نظموں کا محور کائنات ، عشق و محبت ، احساسات ، شمس و قمر ، وفاو ادا ، سوز و گداز ، اور وطن کی محبت سے سرشار جیسے عنوانات کا احاطہ کرتا ہے۔
غزل ان کی پسندیدہ صنف ہے جبکہ نظم ان کا دوسرا میدان ہے۔ ان کے پاس اظہار و عقیدت کے خوبصورت پھول ہیں جنہوں باٹنا وہ اپنا فطری حق سمجھتے ہیں۔
زندگی محبت کے بغیر ادھوری اور کھوکھلی ہے۔
قیصر ساگر کا کہنا ہے جس کے پاس محبت کی زبان ہے وہ عقیدت مند بھی ہے اور خوش نصیب بھی۔
وہ جگنو کی طرح ہر جگہ اپنی روشنی بکھیرتا چلا جاتا ہے۔
ان کے اس شعر میں ایک زبردست پیغام ہے۔

اپنے اندھیرے گھر میں اجالوں کے واسطے
اوروں کا گھر جلا کے صنم روشنی نہ کر

جو لوگ دوسروں کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔
وہ اپنی راہ کیسے روشن کر لیتے ہیں؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسروں کا گھر جلا کر اپنے گھر روشنی ہوگی؟
” محبت ہو ہی جاتی ہے” قیصر ساگر کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔جسے انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اشاعت کے مراحل تک پہنچایا۔میں کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔دعا گو ہوں ان کی یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھی جائے تاکہ وہ دوسرے شعری مجموعہ کے لئے ایک اور شمع روشن کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر اندیش
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد واہ ک

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply