الوداع 2017 ، الحریری اور ہماری گفتگو۔۔ احمد تراث

 یہ برس نہ جانے کیسی کیسی اوٹ پٹانگ باتیں اور نعرے سنتے ہوئے گزر گیا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس برس کے دوران جتنے ‘ثقہ دلائل’ گالیوں کے جائز ہونے پر دیے گئے ہیں ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی شائستہ گفتگو کے حق میں نہیں دیے گئے ہوں گے گالیوں ، الزام تراشیوں اور گستاخ قرار دینے پر جتنا زور صرف کیا گیا ہے اگر اس کا نصف بھی سنجیدہ و مہذب گفتگو کی ترغیب پر صرف کیا گیا ہوتا تو نہ صرف بہت سوں کا بھلا ہو جاتا بلکہ بہت سی زبانیں آلودہ ہونے اور خطا کار ہونے سے بھی بچ جاتیں۔

17 کے آخری سورج کو الوداع کہتے ہوئے عربی ادب کے صدیوں پرانے نثری شاہکار مقامات الحریری کا نسخہ پیشِ نظر تھا جس کا مصنف ابو القاسم الحریری بیان کر رہا ہے کہ اس نے یہ کتاب لکھنے کی فرمائش کرنے والے کو کیا کہا الحریری نے اپنے عزیز کو یاد دلایا کہ جو شخص بھی کتاب لکھتا ہے ہدفِ تنقید بنتا ہے ، کتاب لکھنے والے کی عقل کی گہرائی دوسروں پر عیاں ہو جاتی ہے اور بھرم ٹوٹ جانے کا خطرہ لگ جاتا ہے ، کتاب لکھنا رات کے اندھیرے میں جنگل سے لکڑیاں چننے جیسا عمل ہے جس میں غلطی کے سانپوں اور بچھوؤں کا خوف خون سکھائے جا رہا ہو’ شاید ایسی شاندار علمی و ادبی روایات سے نئی نسل کو دور رکھنے کی سزا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے علمی اختلاف کی شاندار روایت کو خون ریزی میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں الحریری کے الفاظ کو نئے سال کے ماتھے کا جھومر بنا کر یہ عزم اور اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنے میں بھی حساسیت اور احتیاط کے پہلو کو مدِ نظر رکھیں اور بلا تحقیق و احتیاط کوئی بات نہ کہی ، نہ لکھیں اور نہ کسی کا لکھا آگے پہنچائیں یہ ایک ایسا کام ہے جو گزشتہ برس تو ہوتا ہوا نظر نہیں آیا اس برس تو ہو ہی جائے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply