منطق کسی بھی استدلال کو پرکھنے کا علم ہے کہ کسی بھی معاملے میں اگر کوئی شخص کوئی دعویٰ کر رہا ہے یا اس کی دلیل دے رہا ہے تو وہ کتنی مضبوط اور مربوط ہے۔ منطق پڑھنے والوں کو کچھ فیلسیز یا مغالطے پڑھائے جاتے ہیں جن کی مدد سے وہ کسی بھی استدلال کے اندر چھپے دھوکے یا چالاکی کو پکڑ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک ریڈ ہیرنگ فیلیسی یا مغالطہ ہے۔ ریڈ ہیرنگ فیلیسی گفتگو کو اصل موضوع سے ہٹانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس میں گفتگو کے دوران ایک غیر متعلقہ انفارمیشن ڈال دے جاتی تاکہ سامنے والے کو اصل موضوع سے ہٹایا جا سکے۔
مثال اس کی یہ ہے کہ اگر کسی ڈرائیور پر تیز رفتاری کی وجہ سے جرمانہ کر دیا جائے تو وہ یہ کہہ کر جرمانہ دینے سے انکار کرے کہ شہر میں جرائم اتنے زیادہ ہیں پولیس ان کو کیوں نہیں پکڑتی۔ یا پھر کسی سیاست دان کو کرپشن کے الزام میں دھر لیا جائے تو وہ یہ کہہ کر سزا قبول کرنے سے انکار کرے کہ ملک میں جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا۔ میں کیوں سزا قبول کروں۔
اس کا جواب یہ ہے ،ہاں بالکل ،ملک میں جرائم بہت زیادہ ہیں مگر اس کا تمھاری تیز ڈرائیونگ سے کیا تعلق ہے؟ یا پھر یہ کہ ہاں جمہوریت کو واقعی پنپنے نہیں دیا گیا مگر اس سے تمھیں کرپشن کا لائسنس کیسے مل گیا؟
یہ باتیں یوں لکھنی پڑیں کہ ایک محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے ایک بہت سنگین اور گھناؤنے جرم کو کچھ قبائل کا رواج کہہ کر متعارف کروایا۔ اور جب یار لوگوں نے اس پر گرفت کی تو ان کے کچھ حمایتیوں نے سوال پوچھے کہ کیا یہاں بچوں بچیوں کے ساتھ ریپ نہیں ہوتا؟ کیا یہاں باپ بیٹی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے؟ کیا یہاں قبروں سے نکال کر عورتوں کی لاشوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی؟ ڈاکٹر صاحبہ نے خود پوچھ لیا کہ کیا آپ نے زچگی ہوتے دیکھی ہے؟ کیا آپ نے خواتین کی جائے مخصوصہ سلی ہوئی دیکھی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
ان سب سوالوں کا سادہ جواب یہ ہے کہ ان کا آپ کے دعوے سے کیا تعلق ہے؟
بالکل پاکستان میں بچوں کے ساتھ ریپ کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں۔ اس سے کون انکار کر رہا ہے۔ بے شک یہاں پر ایسے دردناک واقعات بھی ہوئے ہیں کہ باپ نے بیٹی اور بھائی نے بہن کے ساتھ زیادتی کی۔ اور ہم ان پر شرمندہ ہیں۔ مگر کیا یہ کسی مخصوص کمیونٹی کا یا علاقے کا کوئی رواج ہے؟ کیا یہ کسی علاقے یا کمیونٹی کی کوئی رسم ہے؟
رواج یا رسم اس کو کہا جاتا ہے جس پر کسی کمیونٹی یا علاقے کے لوگوں کی کچھ تعداد باقاعدہ عمل کرتی ہو اور کم از کم اس کمیونٹی کی کچھ تعداد اسے بُرا نہ سمجھتی ہو۔ جیسا کہ خواتین کے ختنوں کی بات ہے۔ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے مگر کچھ کمیونٹیز اس کو بُرا نہیں سمجھتیں اور اس پر عمل کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہیں۔ افریقہ میں یہ رواج بہت ہے۔ اور اس کو ختم کرنے کی کوششیں ہونی چاہئیں اور ہو بھی رہی ہیں۔
مگر آپ جن افسوسناک واقعات کو بطور دلیل استعمال کر رہے ہیں وہ کہیں بھی رسم یا رواج کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور جس بھی کمیونٹی کو ان کا علم ہوتا ہے تو اپنے اندر موجود ایسے لوگوں سے نفرت کرتی ہے اور ان کو سزا دلوانے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ اسی طرح آپ نے خواتین کے نازک اعضاء کو تالے لگانے کا دردناک واقعہ بیان کیا۔ یقیناً ایسا ہوا ہو گا۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں ایسے نفسیاتی مریض ہوں گے بالکل ان باپوں کی طرح جو بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، بالکل ان نفسیاتی مریضوں کی طرح جو بچوں سے زیادتی کرنے کے بعد انہیں مار دیتے ہیں۔ مگر یہ کہیں بھی رواج ہر گز نہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح قبروں سے لاشیں نکال کر زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں مگر آج تک ڈاکٹر صاحبہ کی طرح کسی نے انہیں کچھ کمیونٹیز کا رواج کہنے کی جسارت ہر گز نہیں کی۔
ڈاکٹر صاحبہ صرف یہ واقعہ بیان کرتیں تو ہم اس پر یقین کرتے اور کرتے بھی ہیں۔ مگر وہ اور ان کے چیلے چانٹے کس طرح ہٹ دھرمی سے اسے کچھ علاقوں کا رواج قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اب ایک گھٹیا قسم کی کج بحثی کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ لوگ غلط مثالیں دے کر لوگوں کو اصل مدعے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یقیناً پچھلے کچھ دنوں میں ہمیں پاکستان سے بہت سی شکایتیں پیدا ہوئی ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ جو بھی جو جی چاہے منہ اٹھا کہ پاکستان کے بارے میں کہہ دے اور ہم چپ کر کے سن لیں۔بطور ریاست ہمیں اس سے بے شمار شکایتیں ہیں۔ مگر اس میں رہنے والی ہر قوم ہر کمیونٹی سے ہمیں محبت ہے اور ان کمیونٹیز کو خواہ مخواہ بدنام کرنے کی ہر کوشش کی ہم نشاندہی کریں گے۔ ہاں جو حقیقی مسائل ہیں ۔ جنسی تشدد کے مسائل ہیں، ہراسمنٹ کے مسائل ہیں، بچوں پر تشدد کے مسائل ہیں ان پر ہم بھی آواز اٹھاتے رہیں گے ان کو ختم کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں گے مگر انہیں کبھی بھی ان کمیونٹیز کا مشترکہ رواج یا عقیدہ قرار نہیں دیں گے۔ کیوں کہ یہ سٹیریو ٹائپنگ اور پروفائلنگ ہے۔ جو بذات خود بد ترین حرکت اور جرم ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں