بچوں کے لیے سپر ہیرو کے طور پر اسپائیڈر مین ،بیٹ مین اور سوپر مین کو پیش کیا جاتا ہے جبکہ اولین ہیرو آپ کی ذات ہونی چاہۓ۔
ان سب کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ انسے انکی عمر سے بڑھ کرعمل کرنے کا تقاضہ کیا جارہا یا ان پر بوجھ ڈالا جارہا بلکہ ان سب کا مقصد ہے کہ اسے آگہی دے دی جاۓ کہ راستہ یہ ہے تمہارا اسکی بنیاد بنا دی جاۓ ۔
بچے کا ذہن چھوٹا بڑا نہیں ہوتا بلکہ سکھانے کا طریقے کیسا ہے یہ بات اہم ہے
سیرت کے مطالعہ اور تعلیم سے دوری لاشعوری کی وجہ سے وہ بچپن سے جن نظریوں اور طریقوں کو دیکھتا سنتا چلا آرہا ہوتا ہے وہ اس کے ذہن کو تیار کر چکے ہوتے ہیں اب اٹھارہ انس سال کی عمر کو پہنچ کر وہ اپنے Ideas ,inspiration اور goals مغربی رنگ کے مطابق طے کررہا ہے اسے نتیجہ بھی وہی چاہۓ ہوتا ہے ایسے میں کوئی قرآن و سنت کا حکم اس کے سامنے رکھ دے تو یقینا اس کے لئے مشکل ہے اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا، اچانک سود چھوڑنے کا حکم شراب کی حرمت نظروں کی حفاظت پردہ کرنا ماں باپ کی خدمت بیوی کے حقوق شوہر کے حقوق ان چیزوں پر عمل کرنا جس میں نفس کی آزمائش ہو تو شرم، جھجک محسوس ہوگی بوجھ لگے گا کیونکہ اس کا موازنہ وہ مغرب سے کر رہا ہوتا ہے جہاں خواہشات کی غلامی ہے اور یہاں اللہ کی یقیناً یہ راستہ ابتداء میں بہت کٹھن لگے گا لیکن جب وہ سیرت کا مطالعہ کرے گا تو آہستہ آہستہ سیرت رسول کی حیات میں پنہاں حکمت اور علم کی گہرائی سے متاثر ہو کر سارے باطل نظریات کے خلاف ہو جائے گا خود میں بہت بڑی مثبت تبدیلی محسوس کرے گا سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سکھائے گی کہ مضبوط اعصاب کا مالک کیسے بنا جاتا ہے ؟ مشکل حالات میں فیصلے کیسے لیے جاتے ہیں ؟ دوست اور دشمن میں فرق کیسے کیا جاتا ہے ؟دوستی کا حق کیا ہے؟ دشمنی کا طریقہ کیا ہے؟ چیلینجز کا سامنا کس طرح کرنا ہے؟ ہر وقت motivated کیسے رہنا ہے؟
دنیا اور آخرت کے مابین اعتدال کیسے قائم رکھنا ہے؟ ازدواجی تعلقات اور دیگر رشتے کس طرح نبھانے ہیں؟ سیاسی اور معاشی معاملات کی کیا حیثیت ہے؟ اس میں ہمارا کیا کردار ہے؟ لیڈرشپ کس طرح کرنی ہے؟ مشکل وقت میں اللہ پر توکل کیا ہے ؟
ان تمام موضوعات کو سیرت رسول سے پڑھنے کے بعد اب مشکل کیسی بھی ہو مسلا کوئی بھی ہواب کیونکہ اہم ترجیع حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات بن چکی ہیں اس لیے ہر مسئلے کا حل بھی آپ کی حیات مبارکہ سے اخذ کیا جائے گا دور جدید کے میں جہاں ہر روز نئی آزمائش، مسائل اور فتنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں اس کی اولین ترجیح حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی اور وہ ان سب کا جواب ان کا حل سیرت رسول سے ہی ڈھونڈے گا ایسے میں نہ گمراہ ہوگا اور نہ کسی قسم کی الجھن کا شکار ہو گا اس کا رستہ مقصد بالکل صاف ہوگا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اسکے لۓ رحمت بن جاۓگی ، رسول اللہ کی ذات اسکے اور رب کے درمیان ایک وسیلہ بن جاۓ گی جیسا کہ اللہ سورۂ مآئدہ آیت 35 میں فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِيْلَـةَ وَ جَاہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۵﴾
اس آیت کا ترجمہ مفسرین دو طرح سے کرتے ہیں:
پہلا :
اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔
دوسرا :
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اللہ کا قرب تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
پہلے ترجمہ کی وضاحت :
بعض علماء نے الْوَسِيْلَـةَ کے معنی ذریعہ اور وسیلہ کے بتائے ہیں کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے کسی کو تلاش کرو جیسے کوئی برِج کوئی سیڑھی منزل تک پہنچنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے اب اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تک پہنچنے کا اولین ذریعہ آپ کی ذات مبارکہ ہے آپ ہی نے ہمیں اللہ سے متعارف کروایا آپ ہی کے ذریعےاللہ معاف فرمانے والا ہے
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
(سورۂ النساء : 64)
اللہ کو منانے کے لۓ حضور کی سفارش کا ذکر خود اللہ نے کردیا۔
اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب!تم ان میں تشریف فرما ہواور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہیں ۔
( سورۃ الانفال 33 )
آپ کے واسطے سے اللہ نے عذاب ٹال دۓ۔
یہاں تک کہ دعا کی قبولیت کے لۓ بھی حضور کا وسیلہ دیا جاۓ ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی آسمان کی طرف بلند نہیں ہوتا جب تک تم اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجو۔ (ترمذی)
اللہ نے آپ سے قیامت کے روز ایک خاص مقام کا وعدہ فرمایا ہے:
یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمٰی جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)،
(سورہ اسراء 79)
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص (دنیا میں پیشہ ور بھکاری بن کر) لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ ہوگا۔ اور فرمایا: قیامت کے دن سورج (مخلوق کے) اتنا قریب ہوگا کہ (ان کا) پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا۔ پس وہ اس حال میں حضرت آدم علیہ السلام سے مدد طلب کریں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مدد طلب کرنے جائیں گے۔ حضرت عبد اﷲ بن جعفر نے اتنا اضافہ بیان کیا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ان سے ابنِ ابی جعفر نے بیان کیا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جائیں گے حتی کہ جنت کے دروازے کا کنڈا پکڑ لیں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جب اﷲ تعالیٰ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور سارے اہلِ محشر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف کریں گے۔‘‘
ِ(اسے امام بخاری اور ابنِ مندہ نے روایت کیا ہے)
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: قیامت کے روز لوگ گروہ در گروہ اپنے اپنے نبی کے پیچھے چلیں گے اور عرض کریں گے: اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے، اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے حتی کہ طلبِ شفاعت کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر آکر ختم ہو جائے گے۔ یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گے۔‘‘
(س حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔.)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں ہی وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس سے زمین (یعنی قبر) شق ہو گی، پھر مجھے ہی جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کی دائیں جانب کھڑا ہوں گا، اس مقام پر ساری مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہو گا۔‘‘
(سے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے)
مذکورہ بالہ احادیث سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ نہ صرف دنیا تک بلکہ آخرت میں بھی جو ہمارے غمخوار اور وسیلہ ء شفاعت ہونگے وہ حضور کی ذات اقدس ہیں۔
دوسرے ترجمے کی وضاحت :
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اللہ کا قرب تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
بعض علماء نے یہاں الْوَسِيْلَـةَ کے معنی اللہ کا قرب تلاش کرنے کے مفہوم میں بیان کیا ہے
اللہ کے قرب کا سب سے پہلا اور محبوب راستہ خود اللہ نے بتا دیا ہے اور وہ ہے:
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
(سورۂ ال عمران ۔31)
قربت کے معنی ہیں نزدیکی / nearness اور اللہ نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ اگر تم میری دوستی میری قربت میری صحبت چاہتے ہو تو پہلے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو( آپ کی سنتوں / طریقوں کو اپناؤں) تو میں تم سےدوستی کرلوںگا اور یہی نہیں بلکہ تمہارے گناہ بھی بخش دوںگا۔
“بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو”
(سورہ احزاب آیت 56)
اللہ اپنے محبوب پر خود بسمیت اپنے تمام فرشتوں کے درود بھیج رہا اور اسی عمل کا حکم اللہ نے اپنے بندوں کو بھی دیا یہ عمل اللہ کو اس قدر محبوب ہے کہ اور کسی پر اس طرح درود نہ خود بھیجا نہ بھیجنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ حضور پر درود اللہ کی رضا ہے اور اللہ کی قربت حضور کی قربت میں موجود ہیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کا قرب تلاش کریں تو حضور پر درود بھیج کر حضور علیہ الصلاۃ والسسلام کے راستے پر چل کر اس قربت کے سفر کو طے کرسکتے ہو اللہ کی رضا حضور سے اظہار محبت میں ہیں
“جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘
( مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب الصّلوٰة علی النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد التشھّد، 1 : 306، رقم : 408)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ :”اے اللہ کے رسول ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے، تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے، تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے، تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
(سنن الترمذی، حدیث نمبر: 2457)
مذکورہ بالہ آیت کا ترجمہ ذریعہ ہو یا قربت دونوں کی وضاحت کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہی ہے ۔
اور ان تمام باتوں کی مزید وضاحت اس انتہائی خوبصورت حدیث سے ہوجاتی ہے :
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ.
’’محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست و بود کو بھی وجود میں نہ لاتا۔‘‘
1. عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 2123
2. آلوسي، تفسير روح المعاني، 1: 51
آپ سے عشق اور عقیدت ہمارے ایمان کا حصہ ہے جس دل میں آپ کی محبت نہیں وہ دل مردہ ہے وہ روح ویران ہے وہ زندگی پھیکی ہے آپ کے صدقے سے ہمارا ایمان تر و تازہ رہتا ہے ۔
اللہ منزل ہے تو اس تک راستہ آپ صلی اللہ وسلم ہیں آپ مشعل راہ ہیں ہمارا وسیلہ ہیں ۔
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر و لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ترجمہ:
اے صاحب الجما ل اور اے انسانوں کے سردار
آپ کے رخِ انور سے چاند چمک اٹھا
آپ کی ثنا کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں
قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ہی بزرگ ہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں