مشی گن میں رہنے والی روبینہ نے جب آنسوؤں سے بھیگی آواز میں اپنی بیٹی شہرزادکی زندگی کی کہانی سنائی کہ جس کا اختتام اسکی 30 سال کی عمر میں جوان مرگی پہ ہُوا تو مجھے لگا کہ شہرزاد جیسی اولادیں مرتی کب ہیں ۔ انکی کہانیاں تو اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک غیر منصف سماج اپنے اطوار نہیں بدلتا۔اور انسان سے محبت اور ایثار کا سبق نہیں سیکھتا۔
روبینہ نے مجھے بتایا کہ شہرزاد دو بھائیوں کی اکلوتی بہن اور والدین کی لاڈلی بیٹی تھی۔بچپنے سے ہی موسیقی سے لگاؤ کی بناء پہ پیانو اور وائلن بہت مہارت سےبجاتی ۔ اس نے موسیقی میں ٹرافی اور کئی انعامات لیے۔185 آئی کیو کے ساتھ وہ معلومات کا انسائیکلوپیڈیا تھی۔اسکی ذہانت نے اسے تعلیم کے میدان میں بہت اعلیٰ مقام پہ پہنچایا لیکن انسانیت سے محبت نے ہمیشہ اسے زمین پہ بسے انسانوں سےجوڑ کے رکھا۔ وہ تو پیدائش سے ہی انسان دوستی کا سبق سیکھ کے آئی تھی۔جبھی بہت محبت اور گرمجوشی سے سب سے ملتی۔”ہمارے گھر ہر وقت بچوں کا میلہ سا لگارہتا۔محلے کے اپنی عمر سے چھوٹے بچوں کو پیار سے بلاتی ان کو مختلف گیمزکھلواتی۔ وہ محبت بانٹنے والی خاص بچی تھی۔”
شہرزاد بچپنے سے ہی اپنی کامیابیوں کے پرچار سے دور رہتی ۔ اس نے ہمیشہ خود کو اس قسم کے توقیری ذکر سے دور رکھا کہ جس میں اسکی کسی شاندار کامیابی کا ذکر ہو۔ہوسکتا ہے کہ وہ سوچتی ہو کہ اس سے کسی ایسے کا دل دُکھے جو اس سطح کی کامیابی نہ حا صل کرسکا ہو۔ تفاخر کے احساس سے دور “وہ تو گاڑی پہ لگانے والا آنررول کا اسٹکر ، جو امریکہ کے اسکولوں میں نمایاں طالب علموں کو ملتا ہے، بھی ہمیں کبھی نہیں لگانے دیتی تھی ۔”
لیکن جس چیز میں شہرزاد نمایاں تھی وہ اسکا بیمار ، نادار اور مدد کی طلبگارعورتوں سے محبت کا جذبہ تھا۔وہ عورتوں کے حقوق کی داعی اور علمبردار تھی ۔اسکا خواب عورتوں کی معالج بن کر انکی خدمت کرنا اور انہیں طاقت دینا تھی۔
اس نے یونیورسٹی آف مشی گن سے بیچلرز کے بعد اسٹنفرڈ یونیورسٹی سے ایم ڈی پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔اسکی ریسرچ نمایاں میڈیکل جرنل میں شائع ہوئی۔ اب وقت تھا کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرتی ۔ عورتوں کی خدمت اور طاقت دینے کاخواب۔
لیکن اجل کا پنجہ مضبوط تھا۔ 19 نومبر ۲۰۲۱ء کو کووڈ نے شہرزاد کو دبوچ لیا۔زندگی کے آخری تین ہفتے وہ کرنول ہسپتال نیویارک کے آئی سی یونٹ میں زندگی کی بقا کی جنگ ہار بیٹھی۔اس نے مرنے سے پہلے کچھ نہیں کہا۔ وہ بہت پرائیویٹ لڑکی تھی لیکن اپنی راز داری میں بھی وہ اپنی شخصیت کے متعلق بہت کچھ کہہ چکی تھی۔
بیٹی شہرزاد تمھیں دنیا کے دکھ اور آزار کی فکر تھی ۔تم ہمیشہ عورتوں کی صحت اور طاقت سے متعلقہ فلاحی کام مشن کی طرح کرنا چاہتی تھیں۔ تمھیں سفر کرنا اور اونچی اڑان بہت پسند تھی۔ سو آج تمھارا سفر آسمان کی وسعتوں کو چھو رہا ہے۔کووڈ کی سفاکی تمہارے خوابوں کا سر نہیں قلم کرسکتی ۔اب تمھارے والدین کا مشن پاکستان میں عورتوں کے فری کوہی گوٹھ ہسپتال کے لیے انتہائی نگہداشت کا یونٹ بنوانے میں معاونت کر رہا ہے۔ جو نہ صرف انکی مالی اعانت بلکہ تمھارے دیرینہ خواب کی پرور ی کرنے والوں کی مدد سے ضرور پورا ہوگا۔ شہرزاد تمھاری کہانی جاری رہے گی۔ جب تک ہماری عورتوں کو انکا جائز حق نہیں ملتا۔
Koohigoth1@hotmail.com

نوٹ: اس منصوبہ میں معاونت کے خواہشمند شہرزاد مومن کی والدہ روبینہ فیروزمومن سے درج بالا ایمیل پہ رابطہ کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر شیرشاہ کی سرکردگی میں چلنے والاکوہی گوٹھ ہسپتال عورتوں اور بچوں کو بالکل مفت خدمات مہیا کرتا ہے۔ اور نان پرافٹ ٹیکس سے مستثنیٰ ادارہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں