معاشرتی سوچ

بحیثیت قوم ہم بہت بے حس ہوچکے ہیں ۔ہم اپنے اسلاف کا پڑھایا ہوا سبق کہیں بھول بیٹھے ہیں۔ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ بحیثیت مسلمان ہماری کچھ اخلاقیات تھی ہماری کچھ ذمہ داریاں تھی۔جنھیں یا تو ہم بھول بیٹھے ہیں یا فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مثال کے  طور پر پڑوسیوں کا خیال رکھنا یہ مسلمان کی ذمےداری میں شامل تھا کہ پڑوسی بھوکا تو نہیں سویا۔اگر پڑوسی بھوکا ہے تو اس کی مدد کی جائے ۔اگر کوئی دوست رشتے دار دور قریب پڑوس میں کوئی بیمار ہے تو اس کی تیمارداری کرنا اس کا حال احوال پوچھنا ،جاتے ہوئے اس کے لیئے کچھ پھل وغیرہ لے جانا۔
اگر کہیں کسی کی میت ہوگئی ہو تو اس کے جنازے میں شرکت کرنا اور لواحقین سے مل کر مرنے والے کی مغفرت کے لیئے دعا کرنا۔یہ وہ تمام لوازمات ہیں ۔جنھیں ہم وقت کے ساتھ ساتھ نظر انداز کیئے جارہے ہیں ۔۔ لہٰذا اسے چھوڑنا اپنے اسلاف کے کردار کو نظر انداز کرنا ہے۔ اور صرف یہی نہیں ایسی اور بہت ساری خرافات بھی ہیں جو ہم میں سرایت کر گئی ہیں۔اور نہ چاھتے ہوئے بھی ہم اس سے اپنی جان نہیں چھڑا پاتے۔اب ہم میں وہ رکھ رکھاو بھی نہ رہا ۔ اب ہم نے اپنے بڑے بزرگوں کا احترام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اب ہمارا احترام سر کو جنبش دینے تک محدود ہوگیا ہے۔ باقی ہوتا وہی ہے جو ہم چاہے ہیں۔جس معاشرے سے احترام اٹھ جائے وہاں زوال اپنے قدم جمانا شروع کر دیتا ہے۔ کل ہی کی بات ہے۔محلے کی دکان سے سودا سلف کے دوران ایک بچے کی گالیوں کی آواز سنائی دی تو میں نے انھیں ڈانٹا کہ کتنی بری بات ہے۔گالیاں نہیں دیتے۔اور یہ دیکھو برابر میں تمہارے بزرگ کھڑے ہیں۔ انھی کا احترام کرلو تو ،بچہ جوابا ًکہتا ہے کہ میرا کون سا باپ لگتا ہے۔ جہاں چھوٹے اپنے بڑوں کا احترام کرنا چھوڑدیں۔وہ معاشرے کبھی پنپ نہیں سکتے۔جس معاشرے میں والدین کو ذلیل کیا جاتا ہو ۔والدین کو گھروں سے نکال باہر کردیا جاتا ہو۔ ۔جہاں بڑوں کا احترام نہ کیا جاتا ہو۔جہاں بیویوں کو مارا جاتا ہو۔ اولاد کو زدوکوب کیا جاتاہو۔یہ اس معاشرے کی کمزوری کی دلیل ہے۔ہمیں معاشرے کی بہتری کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ورنہ ایک وقت آئےگا کہ ہم بند گلی کی طرف جارہے ہونگے۔جہاں سے ہمیں واپسی کی  راہ نہیں ملے گی۔
یہ عدم برداشت کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ بے سکونی کیوں بڑھتی جارہی ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ کیوں ختم ہوتا جارہا ہے۔وجہ کیا ہے،کہ لوگ چڑچڑے ہوتے جارہےہیں۔؟ ایک وجہ دین سے دوری بھی ہے۔ہم نے وہ کام چھوڑ دیئے جس میں سکون تھا۔ راحت تھی ۔ ہم نے نماز چھوڑ دی ہے ہم نے قرآن کی تلاوت چھوڑ دی ہے ہم نے وہ کام چھوڑ دیئے جس میں ہمیں راحت اور سکون بتایا گیا تھا ۔ہم نے ہر وہ کام پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کا ہمیں حکم بجا لانے کو کہا گیا تھا۔ہم معاملات میں دیانت داری نہیں برتتے۔ ہم چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں ۔رشوت لینے کو برا نہیں سمجھتے۔غریبوں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جب معاشرہ ایسی بیماریوں میں پڑ جائے تو پھر وہاں بے سکونی ہی رہتی ہے۔آپ دکھ دے کر خوشی کیسے لے سکتے ہیں۔آپ دکھ دے کر راحت کی تمنا کیونکر کرتےہیں۔ہمیں اپنی اصلاح بطور مسلمان کرنی پڑے گی۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply