• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا اپوزیشن جماعتیں استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گی؟َ۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

کیا اپوزیشن جماعتیں استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گی؟َ۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

سانحہ ماڈل ٹائون بے شک ریاستی بربریت کی بد ترین مثال ہے۔نہتے افراد پر پولیس نے براہ راست گولیاں چلائیں، ایسا اگر دنیا کے کسی اور مہذب معاشرے میں ہوتا تو حکومت اور ذمہ دار افراد کب کے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے۔ ایسا مگر مہذب معاشروں میں ہوتا ہی نہیں ۔کیونکہ وہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شخصیات اور ان کے کارندوں کے احکامات چلتے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹائون بھی اپنے دامن میں یہی دکھ سمیٹے ہوئے ہے کہ ریاست کے بجائے شخصیات کے احکامات نے14 زندگیوں کے چراغ گل کر دیے تھے۔جب اس اندوہ ناک سانحہ پہ احتجاج ہوا تو حکومت ِ پنجاب نے رانا ثنا اللہ سے قانون کی وزرات واپس لے لی تھی، ایک کمیشن بھی بنایا گیا تھا جسے جسٹس نجفی کمیشن کہا جاتا ہے۔کچھ عرصہ بعد پنجاب حکومت نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹائون کے مرکزی کردار رانا ثنا اللہ کو قانون کی وزرات دوبارہ سونپ دی۔یہ تصور ہی بڑا تکلیف دہ ہے کہ مظلومین احتجاج کرتے رہیں اورریاست ان کی ایک نہ سنے۔ایسا رویہ ریاست کی جابرانہ سوچ کا پتا دیتا ہے۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں ہوش ربا انکشافات ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو پبلک کیا جائے،ہر عدل پسند انسان یہ چاہتا ہے کہ بربریت کے نقش میں رنگ بھرنے والے کرداروں کے چہروں سے نقاب اٹھایا جائے۔تاریخ کے اوراق ایسے واقعات کے بارے بتاتے ہیں جہاں بادشاہت نے اپنے مخالفین کو دیواروں میں چنوا دیا۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت جمہوریت کا گیت تو بہت گایا جاتا ہے مگر اس جمہوریت کے پردے میں ہم بد ترین جمہوری آمریت بھگت رہے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین،لواحقین اور متعلقین انصاف کے لیے در بدر بھٹک رہے ہیں، مگر جمہوریت کے چمپئین ہر بار انصاف کے راستے میں دیوار بن جاتے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹائون کا قصاص لینے ایک بار پھر ڈاکٹر طاہر القادری متحرک ہوئے ہیں۔
ان کی حالیہ سیاسی حرکیات فیض آباد دھرنے سے بے شک متصل ہیں۔انھوں نے جب دیکھا کہ نون لیگ کی حکومت پہ شدید دبائو ہے تو انھوں نے بھی بیرون ملک سے پاکستان کو اڑان بھری اور گذشتہ روزپاکستان عوامی تحریک کے زیرِ اہتمام حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل کل جماعتی کانفرنس میں شرکا نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کو ’سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کے لیے سات جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہفتہ کے روز منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ق سمیت دیگر جماعتوں نے شرکت کی۔کانفرنس کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری، پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ کے ذمے داروں کے استعفیٰ کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن تک استعفے نہ آنے پر تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل سٹیرنگ کمیٹی اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں تنبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’عوامی عدالت بھی لگ سکتی ہے، احتجاج بھی ہو سکتا ہے، دھرنا اور کچھ اور بھی ہو سکتا ہے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنما طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر اُن کے حامیوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 14 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بقول ان کے ختم نبوت سے متعلق انتخابی حلف نامے میں تبدیلی کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔اعلامیے کے مطابق ’جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے تحت شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتلِ عام کے ذمہ دار ہیں اور اے پی سی تمام صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کے استعفوں کے مطالبے پر مبنی قرارداد منظور کروائیں۔
اے پی سی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کسی اندرونی بیرونی دباؤ کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان اور’قومی دولت لوٹنے والے‘ شریف خاندان سے کسی قسم کا کوئی این ار او یا مصالحت نہ کی جائے اور وہ کسی بھی ماورائےِ قانون ریلیف کو قبول نہیں کریں گے۔کل جماعتی کانفرنس میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر از خود نوٹس لے۔خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے حکومتِ پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔پاکستان عوامی تحریک کے مطابق اس کانفرنس میں 40 سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔یاد رہے کہ اس سے پہلے پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے استعفے کے لیے 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال یہ ہے کہ کیا عوامی عوامی تحریک اور اس کے اتحادی اپنے دبائو کے ذریعے شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کا استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے؟میرا نہیں خیالکہ ایسا ہو سکے گا۔ اس کی وجہ ہماری سیاسی تاریخ اور زمینی حقائق ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بھی سال میں ایک آدھ بار ہی حکومت پہ دبائو ڈالنے کو اکھاڑا لگاتے ہیں۔ اگر وہ بھی اس حوالے سے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں تو مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کا ستعفیٰ ابھی ممکن نظر نہیں آ رہا۔کیا خبر سعودی عرب سے بھی کوئی ایسی خبر آ جائے جو سانحہ ماڈل ٹائون کے مقتولین کے وارثین کے حق میں نہ ہو۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply