موروثی سیاست اور حکمرانی ۔۔رانا اویس

باپ کے بعد اس کے بیٹے کا حکمرانی سنبھالنا یا باپ پارٹی کا صدر رہا ہو اور اس کا بیٹا اس کے بعد صدر بنے۔۔۔

خبر ہے کہ پی ٹی آئی  نے جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے یہ وہی سیٹ ہے جو جہانگیر ترین کے نااہل ہونے سے خالی ہوئی ہے۔ہمارے ہاں موروثی سیاست یاحکمرانی کا سن کر  اکثر بھائی  جذباتی ہوجاتے ہیں کہ اس پارٹی یا ملک میں کوئی  اور اس قابل نہیں تھا کہ اسے پارٹی کا صدر بنایا جائے۔

پوچھنا یہ تھا کہ باپ کے مرنے کے بعد جائیداد اولاد کو ملتی ہے یا ہمسائے ؟کو یا یہ دیکھا جاتا ہے کہ علاقے میں کون  زیادہ قابل ہے تاکہ اسے جائیداد کا حصہ دیا جائے؟
جب ہم فخر سے اپنی اسلامی تاریخ اور فتوحات کا ذکر کرتے ہیں تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم نے سینکڑوں سال باپ کے بعد ان کے عیاش اور نااہل بیٹوں کو باخوشی اقتدار پہ بٹھایا ہے بلکہ ان لاڈلوں کی جائز اور ناجائز خواہشوں کو کسی مقدس کتاب کی طرح مانا بھی ہے جن عباسی ، عثمانی اور مغل حکومتوں کو ہم اسلامی حکومتیں کہتے نہیں تھکتے اگرچہ وہ مسلمانوں کی حکومتیں تھیں لیکن اسلامی حکومتیں نہیں تھیں اگر آپ ان حکومتوں کو خلافت کا نام دیتے ہیں  تو دل تھوڑا سا بڑا کرکے اس حقیقت کو بھی تسلیم کریں کہ بھٹو کے بعد بینظیر اور اس کے بعد بلاول ہی ہمارے حکمران ہوں گے جہانگیر ترین کے بعد اس کے بیٹے کو ہی ٹکٹ ملے گا نواز شریف کے بعد مریم نواز ہی مسند اقتدار پہ بیٹھے گی۔

کیا شہباز شریف چاہے گا کہ اگلا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بیٹا ہو؟
کیا نواز شریف اپنے بعد گنگو تیلی کے ایم اے پاس بیٹے کو ن لیگ کا صدر بنائے گا؟
کیا  زرداری کے بعد کسی غریب جیالے کو پارٹی کا صدر بنایا جائے گا ؟
نہیں جناب بالکل بھی ایسا نہیں ہونے والا!
پورا پنڈ بھی مرجائے تو مراثیوں کا منڈا چوہدری نہیں بنتا۔۔کیونکہ اگر اقتدار یا طاقت کسی اور کے ہاتھ چلا  جائے  تو وہ اس گھر کی لونڈی بن جائے گی اور وہ بھی یہی کرے گا کہ میرے بعد میرا بیٹا یا بیٹی حکمران بنے ، یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے اس لیے ان شخصیات میں سے کوئی  ایسی غلطی نہیں کرے گا۔۔تو پھر یہ واویلا کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

شاباش چپ کرکے لائنوں میں لگ کے شیر ،تیر اور بلے پہ مہریں لگائیں۔آپ کے حکمران چُنے جاچکے ہیں،آپ نے صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اگلے پانچ سال کس چوہدری نواب ترین یا شریف کو اپنے سر پہ بٹھانا ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply