جیسے تیسے بھی گزری، گُزر ہی گئی
آبِ رواں پہ لکھی کہانی جب انجام کو اپنے پہنچے
اُس کو دہرایا نہیں کرتے
مگر
گاہے بگاہے کوئی سر کش لہر اَب بھی ساحل سے یہ پوچھتی ہے
جب دیا بُجھ رہا تھا
کہاں تھے وہ ہمدم ،وہ ساتھی، وہ سنگی؟
کیسے ٹلے گا وہ طوفاں جو سر اُٹھائے اندر کھڑا ہے
وہ سیاہ بدلی تو اب تک وہیں ہے
نہ گرجے نہ برسے، وہ ٹلتی نہیں ہے
دن شب گزیدہ
اور اس کے لپیٹے میں بے بس
سوالوں کے کالے بھنور میں
ڈوبتا اور اُبھرتا ہوا دِل سوچوں میں گُم ہے
بند آنکھوں سے کوئی تو کہہ دے کہ اب جاگ جاؤ
تعبیر جس کی نہ ہو وہ خواب کیوں دیکھتی ہو؟
بپھری ہوئی ایک موجِ بلا نے یہ پوچھا
وہ پناہگاہ جو تُم نے تخلیق کی تھی
کہاں تھی کہ جب ڈوبنے کو اکیلی کھڑی تھیں؟
دِل کی دیوار پہ جو جُڑے تھے وہ موتی سب جھڑ گئے کیا؟
لب بستہ کھڑی سوچتی ہی رہی کیا کہوں؟
پر حقیقت نے بندِ قبا کھول کر یہ کہا
کہ ریگِ رواں پہ قدموں کے نیچے زمیں کا تصور
تالیاں پیٹتے اور ٹھٹھہ اُڑاتے
تماش بینوں کی بستی میں لعل و گوہر کی تمنا
یہ سب خام خیالی!
پَل پَل بدلتے مزاجوں کا موسم تمہیں راس آئے تو کیسے؟
وہ پتھر سا لمحہ جو نظریں جُھکا دے
بار اُس کا اُٹھا نہ سکو گی
درد دِل کی دوا یہاں بِکتی نہیں ہے
چلو اپنی ویران نگری کو واپس چلو!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں