کسی کو مثالی سمجھنے یا مثالی بنانے سے مراد ہے کہ فرد کے ساتھ ایسے خوائص کا جوڑنا جن کا وہ حامل نہیں ہے، دماغی سطح پر یہ معاملہ کسی بے ضرر فریب سا دکھائی دیتا ہے لیکن توانائی کی دنیا میں ایسا رویہ غیر ضروری اہمیت کو جنم دیتے ہوئے فطری قوتوں کے توازن میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے، اور توازن کے برقرار رکھنے کو یہ فطری قوتیں مخالف ردعمل دیں گی، گاہے ردعمل اس قدر شدید ہو سکتا ہے کہ دوستی دشمنی میں اور محبت نفرت میں بدل سکتی ہے ، مثلآ رومانویت سے بھرپور نوجوان اپنی محبوبہ کو حور ماننے اور منوانے پر کم سے راضی نہیں، جبکہ محبوبہ حقیقی زمینی باشندے کی مانند تمام تر بشری خامیاں لئے ہوئے ہے، اب اگر یہ محبوبہ اپنے عاشق کو ناکوں چنے چبوائے تو ایسا نہیں کہ عاشق کا عشق جاتا رہے گا بلکہ اس کی محبت شدید ترین نفرت میں بدل سکتی ہے، یہاں ایک عمدہ مثال جرمنی کے معروف ناول نگار Karl May کی دی جا سکتی ہے، انہوں نے اپنے زیادہ تر ناولوں اور افسانوں میں جگۂ واردات کیلئے امریکی براعظم کا انتخاب کیا ، اور چونکہ ناولز کے ہیرو کا کردار وہ اپنے ہی نام سے لکھتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ گویا وہ اپنا سفرنامہ یا آپ بیتی بیان کر رہے ہیں، ان کا قلم اس قدر طاقتور تھا کہ ان کی کتب ملینز میں فروخت ہوتیں اور ان کے چاہنے والوں نے انہیں امریکی جغرافیے اور نفسیات کا حقیقی محقق گردانا، لیکن ان کی زندگی کے آخری سالوں میں معلوم ہوا کہ اپنے تمام ناولز لکھنے سے قبل وہ کبھی امریکہ گئے ہی نہیں، بلکہ بعض ناولز تو انہوں نے جرمنی کی جیل میں بیٹھ کر لکھے تو یہی فدائین ان کے دشمن بن گئے کہ انہوں نے اپنے قارئین کو دھوکہ دیا، اب یہاں قصور کس کا ہے؟ اس شخص کا جس نے اپنی قوتِ تخیل سے بہترین ادب تخلیق کیا یا اس قاری کا جس نے اپنی سوچ میں لغو کیا اور ادیب کے ساتھ وہ خصائل جوڑے جو وہ نہیں رکھتا تھا ؟
یہ معاملہ تو کسی فرد کو ایسے خوائص اور اہمیت دینے کا ہے جن کا وہ اہل نہیں، اگر ایسے ہی کوئی شخص اپنے خوابوں کو اس قدر اہمیت دے رہا ہے کہ تمام تر توانائیاں اسی سمت صرف ہو رہی ہیں تو توانائی کا فطری توازن بگڑتے ہوئے دوسری جانب ایک خلا کو جنم دے گا، اس خلا کو پر کرنے کیلئے فطری قوتیں اس شدت سے ردعمل دے سکتی ہیں کہ ممکن ہے آپ کسی ایسےبنجر پہاڑ سے جا ٹکرائیں جو آپ کے تمام خوابوں کی کرچیاں بکھیر دے، غیر ضروری اہمیت کا معاملہ صرف مثبت چیزوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ منفی سمت میں بھی بعینہ یہی الجھن پائی جاتی ہے، وہ خواتین جو کسی سانولے ، کسی پستہ قد مرد پر جملے کستی اور نفرت سے دیکھتی ہیں، یا کسی بدصورت بوڑھے یا بھدے شخص کی دلہن بننے کی بجائے موت کو ترجیح دیتی ہیں، اور مسلسل اس کا اندرونی و بیرونی اظہار کرتی رہتی ہیں، مشاہدہ ہے کہ ان کی اکثریت بالآخر کسی ایسے ہی شخص سے بیاہی جاتی ہیں۔
بچوں کی پرورش میں بھی بعض والدین سے یہی غلطی سرزد ہوتی ہے، والدین اپنی اولاد کی تعلیم کو لے کر اس قدر سٹھیا جاتے ہیں کہ ایک عامی دماغ بچے کو ہر حال میں افلاطون بنانا چاہتے ہیں، نتیجے میں بچہ عموماً منشیات یا جرائم کی دنیا سے جا جڑتا ہے، یہاں بھی اصل وجہ اعتدال کا ٹوٹنا ہے، بچوں کے ساتھ شفقت محبت سے پیش آنا لازم ہے، ان کے سکھ چین کی ذمہ داری بھی آپ پر ہے، لیکن تعلیم، شعبے اور کھیل کود میں ان کی پسند کا خیال رکھا جانا چاہیے ۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ غیر ضروری لاڈ پیار اور ان کی ہر جائز ناجائز خواہش کا پورا کرنے کا مطلب انہیں اپنے سر پہ بٹھانا ہے، اب یہاں زیادہ امکانات اسی بات کے ہیں کہ گردن پہ سوار بچہ آپ کے کان میں موتے گا۔
کسی بھی مذہبی یا سیاسی لیڈر کو اپنے دماغ میں دیوتا کا درجہ دینے والے افراد جان رکھیں کہ ایک دن یہ بت ٹوٹنے والا ہے، کیونکہ اپنی سوچ میں فطری توازن کو آپ بگاڑ رہے ہیں اور جلد یا بدیر اس کا ردعمل آنے والا ہے۔
یہاں ایک چیز کا بتانا ضروری ہے کہ کنفیوژن نہ رہے، اپنے فن، تخلیق یا نظریات کی راہ میں محنت کرنا یا جنونیت پالنا ایک علیحدہ چیز ہے، دوسری طرف ہر حال میں نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش میں سوچ یعنی توانائی کا توازن بگاڑتے ہوئے خلائی قلعے بنانا مختلف بات ہے۔ ان دو میں لطیف فرق ہے، اول الذکر ایک مثبت مشق ہے جبکہ ثانی الذکر کے نتائج ہمیشہ متضاد آئیں گے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں