تدبّر اور یقین کا آپسی تعلق/رضوان خالد چوہدری

چونکہ ہمیں اپنی پیدائش سے پہلے کی زندگی بھی یاد نہیں تو موت کے بعد کی زندگی سے مُتعلق مذاھِب کے دیے نظریات کا ہمارے لاشعور پر بہت گہرے اثرات نہ چھوڑنا قابلِ سمجھ ہے۔
ہمارے بیشتر اعمال کی جڑیں ہمارے جانے پہچانے حقائق میں نکلتی ہیں اور ہم بس یہ جانتے ہیں کہ ہم کسی طرح پیدا ہو گئے اور ایک دِن مر جائیں گے، جبکہ اس سے پہلے یا موت کے بعد کی زندگی سے متعلق بظاہر نہ ہماری یاداشت میں کوئی مثال موجود ہے نہ مشاہدے میں۔
یعنی لازم ہے کہ اگلی اور گزشتہ زندگی سے متعلق ہمارے ایمان میں کچھ کمی بیشی رہے گی۔ جب تک یہ کمی بیشی رہے گی ہم اپنے مقصدِ حیات سے متعلق بھی مشکوک رہیں گے اور جب تک ہم اس مقصد سے متعلق پُریقین نہ ہوں فکری تھکن اور ذہنی دباؤ ضرور ہمارے ساتھ رہیں گے۔
لیکن غور کیجیے کہ یاد تو ہمیں ماں کے پیٹ میں گزارا وقت بھی نہیں اور نہ وہاں اپنے خیالات اور دیگر حقائق ہماری یاداشت کا حصہ ہیں لیکن اپنی اُس زندگی سے متعلق ہمارے ہاں بے یقینی نہیں پائی جاتی۔
ہمیں کوکھ میں گزری زندگی پر کوئی شبہ اس لیے نہیں ہے کہ اپنے سامنے پیدا ہونے والے دیگر انسانوں کی مثال سے ملنے والی دلیل نے ہمارے لاشعور پر اتمامِ حُجّت کر دی ہے کہ چُونکہ ہم بھی انہی جیسے ہیں تو ضرور ہم نے بھی نو ماہ ماں کے پیٹ میں گزارے ہونگے۔
یہ دلیل ملتے ہی ہمارے شعور نے کبھی ماں کے پیٹ میں ہماری زندگی سے متعلق کوئی سوال کھڑا ہی نہیں کیا حالانکہ ہم کوکھ کی اپنی زندگی سے متعلق سرے سے کوئی یاداشت نہیں رکھتے۔
طے ہوا کہ دلیل اپنے سے متعلق ہمیں ایسے موجود حقائق کا یقین بھی دے سکتی ہے جو نہ ہماری یاداشت میں موجود ہوں نہ سامنے ہوں۔
یعنی اللہ کی موجودگی، کوکھ سے پہلے کی زندگی یا موت کے بعد کی زندگی سے متعلق بھی اپنے لاشعور کو یقین دلانا ممکن ہے بشرطیکہ اپنے لاشعور سے ایک ایسے مُدلّل مکالمے کی بنیاد رکھ دی جائے جو مُستقل جاری رہے۔
اگر آپ نے کبھی قُرآن کو ایسے سمجھ کر پڑھا ہے جیسے وہ آج آپ پر پہلی بار نازل ہو رہا ہو تو آپ اس بات پر یقین کر لیں گے کہ قُرآن درحقیقت قاری کے لاشعور سے ایسا ہی مُدلّل مکالمہ ہے جو اُسے اللہ کی موجودگی، کوکھ سے پہلے کی زندگی اور موت کے بعد کی زندگی سے متعلق ایسا ہی پُریقین کر دیتا ہے جیسے ہم یاداشت نہ ہونے کے باوجود اس حقیقت سے مُتعلق ہیں کہ ہم نے ضرور ماں کے پیٹ میں کئی ماہ حالتِ زندگی میں گزارے ہیں۔
آئیے خالی الذہن ہو کو آج سے قُرآن کو ایسے پڑھنا شروع کریں جیسے وہ آج ہم پر پہلی بار نازل ہو رہا ہے۔
اِس سے پہلے ایک مشق لازمی ہے اور وہ یہ کہ ایک دن صبح سے شام تک اس بات پر غور کیجیے کہ دین کے فرض کیے گئے معاملات اور عبادات میں سے کون کون سے معاملات ایسے ہیں جن کا اسی دنیا میں آپکو فائدہ نہیں بلکہ اُنکا فائدہ اُس شخصیت کو ہو گا جِس نے یہ چیزیں آپ پر فرض کی ہیں۔ یعنی ان فرض اعمال اور عبادات کے مقصد اور روح پر گہرا تدبر کیجیے۔ اگر آپکا ذہن ایک بھی ایسی عبادت یا عمل نہ ڈھونڈ پایا جو آپکی بجائے دین بھیجنے والے کے فائدے کی تھی تو گویا اب آپ اس قابِل ہو چُکے ہیں کہ قُرآن آپکی تربیت شروع کرے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply