ہالینڈ کے پھلتے پھولتے دینی مدارس/ضیاء چترالی

ہالینڈ (نیدر لینڈ) میں بدنام زمانہ اسلام دشمن سیاست دان گیرٹ ولڈرز اور اس کے ہمنواؤں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کی نشر و اشاعت کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ گیرٹ ولڈرز کا دست راست سمجھے جانے والے سیاست دان اور سابق رکن پارلیمان جیورام کلارون بھی کلمہ پڑھ کر دین حنیف کی دعوت و خدمت میں مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ مسلم دانشور اور علمائے کرام نے ملک بھر میں دینی مدارس اور اسلامی اسکولوں کا جال بھی بچھا دیا ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ کہ مسلمانوں کے قائم کردہ ان تعلیمی اداروں کی کارکردگی بھی حیران کن ہے۔ ترک خبر رساں ادارے اناطولیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دینی مدارس اور اسلامک اسکول مسلسل کئی برسوں سے بہترین تعلیمی اداروں کی رینکنگ میں سرفہرست شمار ہوتے ہیں۔ ڈچ میڈیا کمپنی “RTL” کے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کی وزارت تعلیم و ثقافت گزشتہ 7 برسوں سے بہترین تعلیمی اداروں کی لسٹ جاری کرتی ہے۔ اسلامی مدارس بچوں کی بہترین تعلیمی کارکردگی کے باعث ٹاپ ٹین اداروں میں شامل ہونے لگے ہیں۔ چنانچہ مدرسۃ البخاری اسلامیہ ہالینڈ بھر کے پرائمری اسکولوں میں چھٹے نمبر پر آیا ہے۔ یہ ادارہ ہالینڈ کے مغربی شہر لیرڈام میں واقع ہے۔ جبکہ جنوبی شہر ماسٹریجٹ میں واقع مدرسہ الحبیب کو نویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ وسطی شہر آمرسفورٹ میں واقع مدرسہ بلال کو بہترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں دسواں نمبر دیا گیا ہے۔ ہالینڈ کے مدارس کی ایسوسی ایشن ’’اتحاد المدارس الاسلامیہ‘‘ کے رئیس کوکھان شوبان کا اناطولیہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم تعلیم کے ساتھ بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کا بھی بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ یہ یورپی معاشرے میں مروج بہت سی خرابیوں سے دور رہتے ہیں۔ اس لئے ان کی تعلیمی کارکردگی میں مثبت اثر پڑا ہے۔ شوبان کا کہنا تھا کہ ہالینڈ میں پہلا اسلامی مدرسہ آج سے 34 برس قبل قائم ہوا تھا۔ اب تو ڈچ معاشرے میں اسلامی مدارس تیزی سے پھل پھول رہے ہیں اور سماج میں ان کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ہالینڈ بھر میں ہم نے 54 مدارس قائم کر رکھے ہیں۔ جن میں ساڑھے 15 ہزار سے زائد بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ ان اداروں میں سے 2 ہائی سیکنڈری سطح کے ہیں، باقی پرائمری۔ یہ سارے ادارے مقامی وزارت تعلیم و ثقافت سے رجسٹرڈ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2018 کے دوران 10 برسوں میں ان اسلامی مدارس سے رجوع کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ 2018 میں یہ تعداد9324 تھی اور 2018 میں 15078 ہوگئی۔ اب تو اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈچ اخبار “فولكس كرانٹ” نے اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران نمائندے نے ایک ایک مدرسے میں جا کر طلبہ کے معیار کو خود بھی جانچنے اور نظام تعلیم و تربیت کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ رائسٹ شہر میں واقع مدرسہ الامانۃ الاسلامیہ کے بچوں کا انٹرویو بھی اس رپورٹ کا حصہ ہے۔ فولکس کرانٹ کے مطابق اس مدرسے میں ویسے تو عام نصابی بھی کتب بھی پڑھائی جاتی ہیں، تاہم اس کے ساتھ مذہبی مواد بھی نصاب کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ اسلامی تربیت کا بھی بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب بچے اسکول یا کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں یا ان کا ٹیچر پڑھانے آتا ہے تو سب بیک زبان اونچی آواز سے ’’السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں۔

رپورٹر کا کہنا ہے کہ ’’یہ طریقہ مجھے بہت اچھا لگا۔ پھر جیسے ہی گھنٹی بجی تو تمام بچے ایک بڑے ہال میں جمع ہوئے۔ پتہ چلا کہ اب نماز کا وقت ہے، تو بچوں نے اجتماعی طور پر نماز ادا کی۔‘‘ اس مدرسے میں بچوں کو لغت، حساب اور عام نصابی کتب کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ شہر میں 3  مزید  اسلامی مدارس بھی کھل چکے ہیں۔ جن میں مجموعی طور پر 200 سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ 35 سالہ اُم مریم کے 2 بچے مدرسے میں زیر تعلیم ہیں۔ “فولكس كرانٹ” کے نمائندے نے ان سے خصوصی بات چیت کی۔ اُم مریم کا کہنا تھا کہ ابتدا میں مقامی لوگ سمجھتے تھے کہ ہم مسلمان شاید مریخ سے آئے ہیں۔ اب صورت حال کافی بدل چکی ہے اور ان لوگوں کو بھی سمجھ آگیا ہے کہ ہم بھی انہی کی طرح کے انسان ہیں۔

ڈچ خبر رساں ادارے این او ایس کے مطابق اگرچہ اسلامی مدارس میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے۔ لیکن اس کے باوجود مقامی حکام کی جانب سے مدارس کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ چنانچہ چند برس قبل فسٹلانڈ کی بلدیہ نے نیا اسلامی مدرسہ کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ حالانکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ 2016 میں ہالینڈ کی سپریم کورٹ مقامی آبادی کی درخواست پر ضرورت کے پیش نظر مذہبی تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دے چکی ہے۔ این او ایس کے مطابق ہالینڈ میں مقیم تمام مسلمانوں کے بچے ان اداروں میں نہیں جاتے۔ مجموعی طور پر ہر 8 میں سے صرف ایک بچہ مدرسے میں زیر تعلیم ہے۔ واضح رہے کہ ہالینڈ کے آئین کی دفعہ 23 میں دینی تعلیم کی کھلی اجازت دی گئی ہے۔ بلکہ 1917 میں بنے ایک قانون کے مطابق حکومت کو ان اداروں کے ساتھ مالی تعاون کا بھی پابند بنایا گیا ہے۔ اس وقت ہالینڈ بھر میں 60 فیصد بچے پروٹسنٹ یا کیتھولک مذہبی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ہالینڈ میں قائم دینی مدارس کے حوالے سے الجزیرہ کا اپنی ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ یہاں دینی مدارس کا نظام مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔

ہالینڈ میں دینی مدارس کی تعداد میں 2008 کے بعد سے نمایاں اضافے کے ساتھ دینی علوم سیکھنے والے طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔ یورپی ملک بیلجیم کے درجنوں طلبہ اس وقت ہالینڈ میں اسلامی اور دینی مدارس میں تعلیم پا رہے ہیں۔ ملک بھر میں 54 دینی مدارس قائم ہیں اور ان میں عصری علوم کے ساتھ دینی علوم کی تعلیم کا سلسلہ لوگوں میں بہت مقبول ہو چکا ہے۔ دینی مدارس (جنہیں اسلامک اسکول کہا جاتا ہے) کے لئے ملکی سطح پر انتظامی بورڈ (وفاق المدارس الدینیہ) تشکیل دیا گیا ہے، جسے” I S B O“ کہا جاتا ہے۔ یہ بورڈ ملک بھر کے 54 میں سے 37 مدارس کے نظم ونسق اور تعلیمی معیار میں بہتری لانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ 54 مدارس میں سے 52 ابتدائی مدارس ہیں جب کہ ایک اسلامی کالج بھی ہے۔ یہ نظام تعلیم دنیاوی اور دینی علوم دونوں پر مشتمل ہے۔ نظام تعلیم میں دنیاوی علوم کے ساتھ فقہ، حدیث اور تفسیر کے دروس پر مشمل کتب کا درس دیا جاتا ہے، جب کہ قرآن کے حفظ کے ساتھ ناظرہ کی تعلیم پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ پورے ہالینڈ میں ایک لاکھ سے زائد مسلم طلبہ عام تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ دینی مدارس میں پڑھنے والے 15 ہزار طلبہ ان کے علاوہ ہیں۔ 2008 سے قبل دینی مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد 5 ہزار سے بھی کم بتائی جاتی تھی، جبکہ اس وقت ان مدارس کے اندر کوئی خاص تعلیمی نیٹ ورک بھی فعال نہ ہونے کے سبب وقتاً فوقتاً اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، تاہم 2008کے بعد سے اس نظام کو ترکی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے فعال بنانے کے لئے جدوجہد شروع کی اور نصاب تعلیم سے لے کر اس کے امتحانات تک سب کچھ کو مرتب ومنظم کیا، جس سے انہیں ترقی ملی، پھر 4 برسوں کے اندر 37 مدارس کی وفاقی بورڈ میں رجسٹریشن بھی ہوئی اور آج ان کے اندر ہونے والی تعلیمی سرگرمیاں قابل دید ہونے کے ساتھ مقامی اور بہت سارے یورپی ممالک کی توجہ کا مرکز بننے لگی ہیں۔ 2008 میں ہالینڈ کے جنرل انسپیکٹوریٹ ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس نظام کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کی تعلیمی سطح کے ساتھ اس کے اندرونی تربیتی نظام اور مالی امور کی کمزوریوں پر انگلیاں اٹھائی گئی تھیں، جس کو بہانہ بنا کر ہالینڈ کی حکومت نے کئی دینی مدارس کو مقفل کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ جب کہ باقی دینی مدارس جن کی تعلیمی اور تربیتی صورت حال اس وقت رپورٹ میں اچھی اور اطمینان بخش قرار دی گئی تھی۔ ان کی مالی امداد کم کر دی گئی تھی، جس کی وجہ سے ان مدارس کی بھی حالت رفتہ رفتہ خراب ہونے لگی تھی اور ان کے بند ہونے کا خطرہ تھا، جس کی وجہ سے ہالینڈ میں بسنے والے مسلمانوں کو یہ خوف لاحق ہوا تھا کہ ان مدارس کا وجود ختم ہونے کے ساتھ وہ دینی اور اسلامی علوم سے دور ہو جائیں گے، کیونکہ ہالینڈ اور یونان کے مسلمان یورپ کے دیگر ممالک کے مسلمانوں کے مقابلے میں اسلام اور مذہب کے زیادہ قریب اور دلدادہ ہیں اور عربی واسلامی علوم کے ساتھ ان کی ذہنی اور فکری وابستگی کی سطح قابل تعریف بتائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے مدارس اسلامیہ کو فعال ومنظم کرنے کے لئے ہالینڈ کے تعلیم یافتہ مسلمان متحرک ہوگئے اور انہوں نے ملک میں باقی رہنے والے مدارس کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی، جب کہ بورڈ بھی قائم کیا۔

ہالینڈ کے دینی مدارس کے ایک بڑے عہدیدار یوسف اطونطاش ہیں۔ یوسف ہالینڈ میں بسنے والے ترک نژاد ہیں۔ وہ ہالینڈ میں بچپن سے رہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق 2008 کے بعد 4 برسوں کے اندر دینی مدارس کے اندر کمزوریوں کم کر دیا گیا، تاہم انہیں اس وقت مدارس کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے، جب کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد میں بھی کٹوتی کا حکم واپس لیا جانا ضروری ہے، تاکہ مالی مشکلات دور ہو جائیں۔ رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کے اندر ایک لاکھ مسلم طلبہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں، تاہم ان میں سے اکثریت دنیاوی علوم کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب کو زیادہ ترجیح دیتی ہے، پہلے حکومتی رپورٹوں کے سبب یہاں کے معیار تعلیم کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب چونکہ معیار کی بلندی کی وجہ سے حکومت نے بھی مدارس کو ٹاپ ٹین اداروں میں شامل کرلیا ہے، اس لئے معاشرے میں جنم لینے والی منفی سوچ میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے، اب امید ہے کہ ہالینڈ پورے یورپ کے لئے اسلامی اور دینی علوم سیکھنے کا رول ماڈل بن کر ابھرے گا۔

رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کے بعض مسلمانوں کی خواہش ہے کہ دینی مدارس کا ماحول و سہولیات بھی دنیاوی تعلیمی اداروں کی طرح ہو جائے اور فرسٹ کلاس انتظامات سے آراستہ ہوں، لیکن ایسا کرنا ہالینڈ کی حکومت کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں ہے، کیونکہ مقامی مسلم کمیونٹی اپنی جانب سے مالی تعاون کرتے ہوئے خوف زدہ رہتی ہے کہ کہیں ان پر دہشت گردی کے الزامات نہ لگ جائیں۔ ایمسٹرڈیم کی یونیورسٹی کے لیکچرار میک لائمرس کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کے نظام تعلیم پر تنقید کا وقت ماضی کا حصہ بن گیا ہے اور ہالینڈ کے مدارس کی تعلیمی سطح اب کسی بھی طرح دنیاوی درس گاہوں سے کم نہیں ہے۔ ان کے مطابق دینی اور مذہبی تعلیم کی اجازت ہالینڈ کے آئین اور دستور کے مطابق ہے اور اس کو معطل کرنا ملک کے جمہوری ساخت اور قانونی حیثیت کو مجروح کرنے کے مترادف عمل شمار ہو گا۔ واضح رہے کہ ہالینڈ میں قائم دینی مدارس دیگر یورپی ممالک کی طرح مسلمانوں کی ذاتی کاوشوں اور خواہشوں کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ ہالینڈ میں سرکاری سطح پر دو قسم کا نظام تعلیم رائج ہے، پہلی قسم پبلک ایجوکیشن کہلاتی ہے، دنیاوی تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہے، جب کہ دوسری کو خاص تعلیم (اسپیشل ایجوکیشن) کہا جاتا ہے۔ ان دونوں انواع کو حکومت کی جانب سے فنڈ مہیا کیا جاتا ہے۔ اسپیشل تعلیم میں مذہبی تعلیم داخل ہے، جس کے تحت ہالینڈ میں موجود یہودی، عیسائی اور مسلم کمیونٹی کو مذہبی تعلیم دینا طے ہے اور اسے بھی حکومت کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق دیگر یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی معاشرے میں موجود بعض متشدد جماعتیں اور افراد ہالینڈ حکومت کے اس منصوبے کے سخت مخالف ہیں اور اس منصوبے کو بند کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں، جس کی وجہ سے حکومتی اداروں میں موجود بعض افراد اس مہم میں کامیاب بھی ہوئے تھے اور دینی مدارس کے نصاب کو کمزور اور دنیاوی تقاضوں سے ناموافق قرار دلوا کر ان کو ختم کرنے کی کوشش کرنے لگے تھے، تاہم گزشتہ 7 برس کے دوران مدارس بورڈ نے اس خرابی اور قابل تنقید امور کا ازالہ کر کے اس کو مضبوط اور پختہ بنایا ہے اور ان اداروں کا معیار بلند کردیا ہے، جس کی وجہ سے بورڈ کو ملنے والی رپورٹوں کی روشنی میں اندازہ کیا جاتا ہے کہ اگر بائیں بازو کی جماعتوں کی دشمنی سے یہ منصوبہ بچ جاتا ہے تو آئندہ دس برس میں ہالینڈ یورپی ممالک کی مسلم کمیونٹی کے لئے بہترین رول ماڈل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کے بائیں بازو کے راہ نما گیرٹ ویلڈرز نے بارہا اس نظام کو ختم کا حکومت سے مطالبہ کیا ہے، تاہم آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہونے کے سبب وہ اپنے اس مذموم ارادے میں اب تک ناکام ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply