جمہوری سیاسی سوچ اور اسیران/عامر حسینی

ملتان میں یہ ایک معروف سیاسی ڈیرے کا منظر نامہ ہے۔ بڑے سے گراسی پلاٹ میں چاروں طرف دائرے کی شکل میں کرسیاں پڑی ہیں جن پر لوگ براجمان ہیں ،جبکہ درمیان میں چار کرسیاں ہیں اور ان کے سامنے میز پڑی ہے ۔ سامنے کی چار کرسیوں میں دو پر اُس سیاسی ڈیرے کے مالک سیاست دان کے دو بیٹے بیٹھے ہیں، ایک رُکنِ قومی اسمبلی ہے، دوسرا سابق رکن صوبائی اسمبلی ہے، باقی دو کرسیوں پر پیپلزپارٹی کے دو سٹی عہدے دار بیٹھے ہیں۔ رُکن قومی اسمبلی اور سابق رکن صوبائی اسمبلی کے سامنے کاغذ پڑے ہیں، وہ اپنے سیکرٹری کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد کبھی ایڈیشنل آئی جی پنجاب کو فون ملانے کا کہتے ہیں، کبھی سی پی او ملتان کو، کبھی آر پی او ملتان کو، کبھی کسی ضلع کے ڈی پی او اور کبھی کبھی براہ راست کسی تھانے کے ایس ایچ او کو فون ملاتے ہیں ۔ اور سامنے پڑے کاغذ پر لکھے ناموں میں سے ایک ایک نام دوسری طرف بولنے والے کو لکھواتے ہیں اور ساتھ ساتھ صفائی دیتے ہیں کہ بولے گئے نام کا گھیراؤ، جلاؤ، حملوں میں کوئی کردار نہیں، اُس کے باپ کی شرافت کی گواہی دیتے ہیں ۔

اس دوران ایسا ہوتا ہے کہ رکنِ قومی اسمبلی کسی بریگیڈیئر رینک کے عہدے دار کا فون اپنے ذاتی سیل سے ملاتے ہیں، اور کسی کی سفارش کرتے ہیں، دوسری طرف سے پتا نہیں کیا بات ہوتی ہے، وہ کال بند کرتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد اپنے موبائل کی سکرین سامنے کھڑے ایک بزرگ شخص کی طرف کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ‘دیکھ لیں چچا سئیں، اپنے بیٹے کو، شناخت پریڈ کے دوران ایک سی سی ٹی وی فوٹیج سے اس کی شناخت ہوئی ہے۔

میں وہاں پیچھے دور کھڑا تھا، دو گھنٹے یہ پریکٹس دیکھتا رہا، اس دوران رکن قومی اسمبلی اور رکن صوبائی اسمبلی دونوں مسلسل فون پہ فون کرتے رہے اور درمیان درمیان میں وہاں پر آئے لوگوں کو تسلی بھی دیتے رہے ۔

اس دوران نہ تو انہوں نے اسیر بچوں کے والد، بھائی، چچا، تایا یا دوسرے رشتہ داروں کو   تو طعنے دیے، نہ اُن کی بے بسی کا مذاق اڑایا۔
پی ٹی آئی کے نام پر اٹھائے جانے والے نوجوانوں کے یہ فیملی ممبرز وہاں تک اس سیاسی ڈیرے سے وابستہ اپنے علاقے کے سیاسی لوگوں کے  ذریعے سے پہنچے تھے۔

میری ہمدردی اور وابستگی بھی اُسی پارٹی سے ہے جس سے اس سیاسی ڈیرے والوں کا تعلق ہے اور میں ان کا سخت ناقد بھی ہوں ۔ لیکن وضع داری، رکھ رکھاؤ، لحاظ، شرم اور وسیبیوں کے ساتھ نرم خوئی میں یہ سیاسی خانوادہ ملتان کے کئی سیاسی خانوادوں سے برتری لے گیا ہے ۔ میں وہاں گیا تو اپنی بھڑاس نکالنے تھا لیکن یہ منظر دیکھ کر میں اپنی بھڑاس نکالنا بھول گیا۔

پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ جمہوری سیاست سے جڑے کسی بھی سیاسی جماعت کے اوریجنل رہنما اور کارکن اکثریت میں انتقام سے دور رہتے ہیں چاہے ان میں سے کئی ایک سوشل میڈیا یا عام گفتگو کے دوران “یوتھیاپے” کی بیماری پر کتنے ہی طنزیہ نشتر لگاتے ہوں۔ اور اُن کئی ایک کے زبانی جارحانہ ردعمل کے پیچھے کوئی ایک دن کی کہانی نہیں ہے بلکہ اُس کے پیچھے کم از کم 13 سال کی سوشل میڈیا پر کی جانے والی غلیظ ترین اور پھکڑ پَن کے ساتھ کیے جانے والے حملے ہیں ۔ اس نے ردعمل کو جنم دیا ہے ۔

لیکن اس سب کے باوجود پیپلزپارٹی کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی ہوں، ٹکٹ ہولڈر ہوں، پارٹی عہدے دار ہوں انھوں نے نہ تو پولیس یا انٹیلی جنس کو تحریک انصاف کے کارکنوں، ہمدردوں، ووٹروں کی لسٹیں   دیں، نہ ہی انھوں نے اپنے حلقے میں اپنے حریف کے کسی ایسے حامی کو نشانہ بنایا جو 500/1000 ووٹوں پر اثر انداز ہوتا تھا ۔

میں نے اپنے حلقے میں پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈر مسعود مجید خان ڈاہا کو کئی ایک پی ٹی آئی کے اسیر کارکنوں، حامیوں کی رہائی کی کوشش کرنے کو کہا، انھوں نے نہ صرف فون کیے بلکہ وہ خود ڈی پی او خانیوال، آر پی او کے پاس گئے، یہا‌ں تک کہ بعض کے معاملے میں انھوں نے زرداری ہاؤس فون کرکے اعلیٰ  سطحی سفارش کروائی، یہ سب ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب ضلعی صدر پی ٹی آئی خانیوال نے ایک پریس کانفرنس کرکے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔

میں ملتان، خانیوال میں جہاں بھی رات کو، دن میں اپنے جمہوری سوچ رکھنے والے دوستوں سے ملا ،جو یا تو عملی سیاست میں سرگرم ہیں یا پھر شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، وہ سب کے سب کسی نہ کسی سطح پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے، بنا کسی لالچ کے پی ٹی آئی کے نام پر پکڑے جانے والے ایسے لوگوں کی رہائی کی کوشش کررہے تھے جن کا کوئی تعلق حملوں سے نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا ہمارے سماج میں سیاسی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ موجود اُس تعلق کی اساس کی عکاسی کرنے سے قاصر ہے جو محلے، کام کی جگہ اور کئی دوسرے حوالوں سے تشکیل پاتا ہے اور وضع داری، خیر خواہی کو جنم دیتا ہے ۔ ہمیں خیر خواہی کی روایت کو سوشل میڈیا پر چھائے غیظ و غضب، طعن و تشینع کی غالب آندھی میں کھوجانے نہیں دینا ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply