گردش ِ زمانہ/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

ہوٹل پہ رش کم تھا ، میں نے کھانا شروع کیا تو ویٹر پاس والے میز پہ آ بیٹھا۔ وہ اٹھائیس تیس سالہ جوان بندہ تھا۔میں نے پوچھا کہاں سے ہو؟ تو بولا “باجوڑ سے”

پھر تعلیم کی بات آئی تو بتانے لگا
“میں سکول کبھی نہیں گیا لیکن مدرسے میں پڑھتا رہا ہوں۔ اس لیے اب اردو پڑھنی آتی ہے، لکھنی نہیں آتی۔”
مجھ سے پوچھا، آپ کہاں سے ہو؟
میں نے بتایا تو کہنے لگا ہاں وہاں بھی گیا تھا میں
میں نے ہنستے ہوئے پوچھا اور کہاں کہاں گئے ہو تو بولا “گیا تو بہت دور دور تک ہوں”

کچھ دیر چپ رہا پھر بولا
“ہم پانچ لڑکے تھے۔ پنڈی میں فیض آباد سے گاڑی پہ بیٹھ کر لاہور پہنچے۔ پھر لاہور سے کراچی گئے ، وہاں سے کوئٹہ۔ کوئٹہ سے بارڈر پار کر کے افغانستان چلے گئے۔ افغانستان سے ایران میں داخل ہوئے اور ایران سے چھپتے چھپاتے بارڈر پار کرتے کرتے ترکی پہنچ گئے۔ ساتھ والوں میں کوئی کہیں پکڑا جاتا، کوئی کہیں لیکن میں بچتا بچاتا چلتا رہا۔ جب ترکی پہنچے تو ہم پانچوں میں سے صرف میں ہی پکڑے جانے سے بچا ہوا تھا۔ میں بڑا خوش تھا کہ رستے میں کہیں پکڑا نہیں گیا لیکن وہاں پہنچا تو عثمانیہ میں پکڑ لیا انھوں نے مجھے اور واپس بھیج دیا۔ میرے ساتھ والے جو رستے میں پکڑے گئے تھے ، بار بار ڈنکی لگاتے رہے اور اب وہ سارے اٹلی بیٹھے ہوئے ہیں اور میں بس اسی ہوٹل پہ کام کر رہا ہوں، ساری بات نصیب کی ہے”

میں نے تسلی دینے کے لیے کچھ جملے ادا کیے تو بولا
“رستے میں پکڑا جاتا تو خیر تھی، دکھ تو یہ ہے کہ وہاں جا کر پکڑا گیا۔ ساری مشکلات سہہ لیں ، تکلیفیں دیکھ لیں اور پھر حاصل بھی کچھ نہیں ہوا۔ چھتیس دن پیدل چلتے رہے تھے ہم ، مسلسل چھتیس دن۔ ان چھتیس دنوں میں صرف تین دن کھانا کھایا تھا ورنہ کبھی بسکٹ مل جاتے تو کھا لیتے ، کبھی بھوکے رہ لیتے۔ کبھی چل چل کے پاؤں شل ہو جاتے اور کبھی خالی پیٹ بھوک کی وجہ سے بدن سے جان نکلتی محسوس ہونے لگتی۔ لیکن اس سب کے بعد بھی ملا کچھ نہیں، میں واپس یہیں پہ آیا بیٹھا ہوں”۔

پھر مزید بتانے لگا کہ یہ پانچ چھ مہینے پہلے کی بات ہے۔ اب سردیوں میں گرم چادریں بیچتا رہا ہوں، اللہ کا شکر ہے اس نے اچھا رزق دیا ہے۔ میرے ساتھ والے سارا دن پھرتے رہتے تھے اور ان کی چادریں نہیں بکتی تھیں لیکن میں بس کچھ دیر کا پھیرا لگا کر آتا تھا تو میری ضرورت کا خرچہ نکل آتا تھا۔ اب گرمیوں میں فارغ بیٹھا تھا تو یہ ہوٹل والے جاننے والے تھے، انھوں نے زبردستی یہاں کام کرنے کا کہہ کر ساتھ رکھ لیا۔ کسی کے نیچے کام کرنا مشکل ہوتا ہے، باتیں نہیں سنی جاتیں لیکن یہ جاننے والے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں بننے دیتے۔

میرا کھانا ختم ہو چکا تھا اور اس کی باتیں بھی۔ میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ دوبارہ ڈنکی لگائے گا یا نہیں کیونکہ مجھے پوچھے بغیر لگا وہ دوبارہ کبھی ایسی کوشش نہیں کرے گا۔ ڈنکی لگانے کے دوران بیتے چھتیس دنوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لہجے کی تکلیف اور چہرے پہ ظاہر ہوا کرب بتاتا تھا کہ وہ ان چھتیس دنوں میں کس مشکل سے گزرا تھا۔ وہ یقیناً دوبارہ اس تکلیف سے گزرنا نہیں چاہتا تھا یا گزرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے وہاں سے اٹھتے ہوئے اسے یہ ضرور کہا کہ جب دوسروں کی چادریں نہیں بک رہی ہوتی تھیں تب بھی تمھاری چادریں بک جاتی تھیں۔ یورپ میں رہنا تمھارے نصیب میں نہیں تھا، شاید اللہ نے تمھارے نصیب کا رزق یہیں لکھ رکھا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply