شاہ ملندا کے فلسفیانہ سوالات اور ان کے جوابات /انور مختار

سیالکوٹ شہر کی تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے۔ اس شہر کی بنیاد راجہ سل نے دریائے راوی اور چناب کے درمیانی علاقے میں رکھی تھی تاکہ اس علاقے کا نظم و نسق بہتر انداز میں سنبھالا جا سکے۔ اس نے شہر کے وسط میں ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ ’سل کوٹ‘ کہلایا اور یہی نام آگے چل کر سیالکوٹ بن گیا سیالکوٹ شہر نے کئی عروج و زوال دیکھے ہیں اس علاقے کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ نہ صرف بدھ، ہندو اور مسلمان بلکہ سکھوں، فارسیوں، افغانیوں، ترکوں اور مغلوں نے بھی اس علاقے کی طرف ہجرت کی ہے۔ سیالکوٹ پہلا دور قدیم شہر ”ساگالہ” کا ہے۔ آس پاس کے علاقے کی کھدائی سے یہاں قدیم یونانی تہذیب کے آثار ملے ہیں جن میں یونانی سِکّے اور اسٹوپے شامل ہیں۔قدیم یونانی کتابوں میں اس شہر کا ذکر ”ساگالہ” کے نام سے ملتا ہے جو انڈو- یونانی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ ضلع کی مختلف جگہوں پر کھدائیوں سے اس دور کے قدیم یونانی نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہندو راجا سل کا دور آیا جس نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ راجا سلبان/سالبان نے اسے کشمیر کا حصہ بنا کر یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا اور اسے اس شہر کے نام پر ”سیالکوٹ قلعہ” کا نام دیا آثار قدیمہ کی کھدائی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیالکوٹ کے آس پاس کا علاقہ پراگیتہاسک دور میں آباد تھا جو کہ 5000 قبل مسیح کا ہے۔ یہ شہر وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ تھا اور اس دور کے بہت سے نمونے اس علاقے میں دریافت ہوئے ہیں۔ یہ شہر قدیم دور میں تجارت کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہ موریہ سلطنت کا ایک حصہ تھا جس نے برصغیر پاک و ہند پر 321 سے 185 قبل مسیح تک حکومت کی۔ اس دور میں سیالکوٹ بدھ مت کا مرکز بھی تھا اور اس علاقے میں بہت سے بدھ اسٹوپا اور خانقاہیں تعمیر کی گئیں۔سیالکوٹ کی راجکماری کھیما کو بدھ مذہب میں پہلی اہم عورت بھکشو سمجھا جاتا ہے۔ کھیما سیالکوٹ، سگالا کے شاہی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔۔وہ قدیم ہندوستانی ریاست مگدھ کے بادشاہ بمبیسارا کی بیوی تھی۔ کھیما کو اس کے شوہر نے مہاتما بدھ سے ملنے کے لیے راضی کیا، جس نے اس خانقاہ کی خوبصورتی کے بارے میں گانے کے لیے شاعروں کی خدمات حاصل کیں جس میں وہ اس کے پاس رہ رہا تھا۔ اس نے ایک عام خاتون کے طور پر بدھ کے خطبات میں سے ایک کو سنتے ہوئے نروان حاصل کیا، جسے بدھ مت کی کتابوں میں ایک نادر واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے حصول کے بعد، کھیما نے بدھا کے ماتحت ایک بھکشونی کے طور پر خانقاہی زندگی میں داخلہ لیا۔ بدھ روایت کے مطابق، مہاتما بدھ نے اپنی خاتون شاگرد کو حکمت میں سب سے آگے قرار دیا۔
اسی شہر میں ایک بادشاہ ملندا گزرا ھے جس کے عہد میں بدھ مت کی ایک مشہور کتاب تصنیف کی گئی جسے بدھ مت کی مقدس کتابوں میں شامل کیا جاتا ہے یہ کتاب راجہ ملندا اور مشہور بدھ راہب ناگ سینا کے سوال جواب پر مشتمل ہے
The “Questions of King Milinda” or Milindapanha is an amazing and unique ancient Buddhist text. It records the encounter between a Greek king and a Buddhist monk around 200 BC and reads like a modern dialogue between East and West.The Milinda Panha is a Buddhist scripture that was written between 100 BC and 200 AD. It claims to be a discussion between the Indian Buddhist scholar Nagasena and the Indo-Greek monarch Menander I of Bactria, who ruled in the second century BC.
“مکالمہ بلاگ” میں داؤد ظفر ندیم ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ راجہ ملندا 150 سال قبل مسیح میں گزرا ہے۔ راجہ ملندا کی پاکستان کی تاریخ میں وہی حیثیث ہے جو بھارت کی تاریخ میں اشوک اعظم کی ہے مہاراجہ ملندا کی پیدائش کے بارے مختلف روایات ہیں مگر قرین قیاس یہی ہے کہ وہ سکالا یعنی سیالکوٹ میں پیدا ہوا تھا۔۔ملندا نے سیالکوٹ کو اپنا دارلحکومت بنایا تھا۔یہ شہر اس زمانے میں نہایت زرخیز اور شاداب تھا۔ اس کے چاروں طرف باغات، تالاب اور جھیلیں تھیں۔ گھنے درخت تھے اور مٹی کے بڑے بڑے ٹیلے تھے جو پہاڑیوں کی شکل اختیار کئے ہوئے تھے۔ جن پر سبزہ اگا ہوا تھا۔ ساتھ دریا بہتا تھا اور ندی نالے بھی رواں تھے۔ اس کی شہر پناہ بہت مضبوط اور آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی تھی۔ جابجا حفاظتی برج بنے ہوئے تھے، جہاں دفاع کے لئے ایک طاقت ور سپاہ موجود تھی جو شہر کا عمدگی سے دفاع کر سکتی تھی۔ شہر پناہ کے شاندار بیرونی دروازے، ان کی محرابیں اور زبردست طریقے سے بنی ڈیوڑھیاں تھیں۔ شہر کے وسط میں شاہی قیام گاہ تھی جس کا رنگ سفید تھا۔ بازار اور منڈیاں قیمتی سامان سے سجی رہتی تھیں، شہر میں رفاع عامہ کے بیسوں منصوبے چل رہے تھے اور ہزاروں رہائشی مکانات بلکہ بعض حوالوں میں رہائشی مکانات کی تعداد لاکھ سے زائد بتلائی گئی ہے بازار میں ہاتھی، گھوڑے، خچر اور گدھے نظر آتے جبکہ ان کی گاڑیاں الگ تھیں شہر ایک پر ہجوم علاقہ تھا اور یہاں ہر طبقے کے لوگ رہتے تھے
ملندا ایک اعلی درجے کا جنگجو تھا مگر اس کی اصل صلاحیت اس کی علم دوستی تھی۔ اپنی دانائی، ہوشمندی، راست بازی، عدل پروری راست بازی اور بے پناہ جرات کی وجہ سے اپنی مثال تھا۔ ملندا نے ایک طاقت ور فوج ترتیب دے رکھی تھی اور اس کے پاس ایک کثیر خزانہ جمع ہو چکا تھا۔ راجہ ملندا کے دور میں مگدہ کی سلطنت پر پشامترا کی حکومت تھی پشا مترا ایک بڑا بادشاہ تھا اس کی خواہش تھی کہ وہ راجہ ملندا کی سلطنت پر قبضہ کرے۔ اس کی چھیڑ خوانی نے راجہ ملندا کو مجبور کیا کہ وہ پشا مترا کو سبق سکھائے راجہ ملندا کی افواج نے نہ صرف حملہ آوروں کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ اس کے علاقے میں گھس کر اس کے مقدس گھوڑے کو بھی پکڑ لیا جو بادشاہ پشامترا نے قربانی کے لئے مخصوص کئے ہوئے تھا۔ بالاآخر پشا مترا کو جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ ملندا کی فتوحات کا سلسلہ بہت وسیع تھا۔ اس نے دریائے بیاس کو عبور کرکے اسامس تک رسائی پائی تھی اس سے آگے پٹیلے تک گیا تھا۔ اور سراشتر یا کاٹھیاوار کو فتح کر لیا تھا۔ راجہ ملندہ کے سکے کابل سے یوپی تک کے علاقے میں ملے ہیں۔ راجہ ملندا کی سلطنت میں وسطی افغانستان کے اضلاع، خیبر پختون خواہ، تقسیم سے پہلے کا سارا پنجاب، راجھستان، سندھ اور گجرات حتی کہ یو پی کا بھی کچھ علاقہ شامل تھا۔ اس سلطنت کا دارالحکومت سیالکوٹ تھا۔ اس نے تجارتی راستوں کو محفوظ اور مضبوط بنایا تھا۔ ٹیکسلا اور پشکلاوتی کی تزہین نو کی اور ان شہروں کو خوبصورت بنایا۔ پاٹلی پتر سے سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے مغرب کی طرف راستے تعمیر کروائے۔ جنڈ پال کا مندر تعمیر کروایا۔ راجہ ملندا کے عہد میں مختلف اقسام کے سکوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ جن میں زیادہ تر چاندی اور تانبے کے سکے تھے۔ جن پر مختلف طرح کی شبیہیں بنی ہوئی تھیں اور خروشی رسم الخظ میں عبارت لکھی ہوئی تھی۔ راجہ ملندا ملکی اور سیاسی معاملات میں برہمنوں کی رائے کو خاص اہمیت دیتا تھا وہ ان کے افکار اور مباحث کو بڑی دلچسپی سے سنتا تھا مگر رفتہ رفتہ وہ ان برہمنوں اور مذہبی عالموں سے بیزار ہو گیا اس نے ان سے باقاعدہ علمی سوالات پوچھنے شروع کئے اور اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ ان کا علم الفاظ کی گردان اور سطحی مباحث کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کسی تخلیقی اور علمی گہرائی سے محروم ہیں۔ اس نے ان کی علمی کج بحثیوں اور کج حجتیوں کی وجہ سے شہر میں مذہبی اور علمی مباحث پر پابندی لگادی بارہ سال سیالکوٹ میں علمی اور مذہبی مباحث پر پابندی رہی۔ بارہ سال بعد شہر میں بدھ عالم ناگ سینا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیالکوٹ میں داخل ہوا انہوں نے زرد رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کے زرد رنگ کے لباس شہر میں عجیب روشنی دیتے تھے۔ راجہ ملندہ اور اس کے پانچ قابل اعتماد وزراء ناگ سینا کی شہرت سن کر اس کے پاس حاضر ہوئے اور یہاں اس نے ناگ سینا کو درخواست کی کہ وہ دربار میں راجہ سے ملاقات کرے اور اس کے سوالوں کا جواب دے۔ انھیں سوالوں جوابوں سے بدھ مت کی وہ تاریخی کتاب تیار ہوئی جسے اب تک بدھ مت کی ایک مقدس کتاب سمجھا جاتا ہے ان سوال جواب کے نتیجے میں راجہ ملندہ نے بدھ مت قبول کیا۔ ۔ملندا کی ہردلعزیزی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ مرا تو اس کی مقدس راکھ سے حصہ پانے کے لئے شہریوں نے بہت جدوجہد کی تھی”
The Milindapanha is considered the most important book of Theravada Buddhist doctrine outside the Pali Tipitaka and is still widely read. Its translation is also included in the Chinese Tipitaka.
یہ عظیم کتاب قدیم پنجاب کے یونانی بادشاہ کے روحانی تجسس کا ثمر ھے اس کتاب کا شمار مشرق کی مقدس کتابوں میں ھوتا ھے فلسفہ، الہیات اور مابعدطبعیات کے ساتھ ساتھ تقابل ادیان کے علمی شعبوں میں یہ کتاب ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے شاہ ملندا کے اٹھائے ہوئے ابدی و آفاقی سوالات مثلاً کہ ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اس دنیا سے چل بستے ہیں اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجاتے ہیں، تو پھر اس آمد و رفت کا مقصد کیا ہے؟ اور اگر ہم تمام انسان اس دنیا میں نہ آتے تو کیا خرابی پیش آتی؟ اور کیا مشکل ہوتی؟ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ اور کیوں اس دنیا سے چل بسے ؟ اور اگر ہم اس مقصد کو سمجھنا چاہیں تو کیا ہم میں سمجھنے کی طاقت ہے؟ حقیقی شے اور بظاہر نظر آنے والی شے میں کیا فرق ہے؟ کیا مادی چیزیں حقیقی ہیں؟ کیا مادی چیزوں کی دنیا، یہ اجسام، یہ جانور، یہ پہاڑ، یہ چاند تارے، یہ سورج غرضیکہ یہ ساری چیزیں واقعی ایسی ہی ہیں؟ کیا وہی چیز حقیقت ہے جس کا مادی وجود ہو؟ جو کنکریٹ ہو؟ کیا مادے کے اجزأ کی بے معنی حرکت جس کا انجام موت اور فنا ہو جانا ہے ہی اصل حقیقت ہے؟ یا کیا ان بظاہر نظر آنے والے مادی اجسام کی حقیقت کچھ اور ہے اور یہ محض فریبِ نظر ہے کہ یہ ہمیں ایسے دکھائی دیتے ہیں؟ کیا حقیقت کی دنیا کہیں اور ہے؟ سچ مادی اشیأ سے ماورا کہیں ذہن کی دنیا میں ہوتا ہے؟ہماری حقیقت کیا ہے؟ کیا ہم صرف ایک ایسا مادی جسم ہیں جو دکھ سے بھاگتا ہے اور خوشی تلاش کرتا ہے اور ایٹمز کا ایسا مجموعہ ہے جس کی ساخت ہی کچھ ایسے بنائی گئی ہے، جو موروثی، نفسیاتی اور ماحولیاتی جبر کے نتیجے میں تشکیل پانے والا ایک جسم ہے؟ یا کیا ہم اصل میں ذہن اور روح ہیں ؟ لیکن یہ کس قسم کی حقیقت ہے؟ کس طرح روح جیسی غیر مادی چیز جسم جیسی مادی چیز میں سمو سکتی ہے؟ ہم کیا جان سکتے ہیں اور جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ کیسے جانتے ہیں؟ کیا کوئی ایسا سچ ہے جس پہ ہم یقین کر سکیں؟ کیا کوئی قضیہ صرف اسی صورت میں سچ ہوتا ہے اگر اسے حواسِ خمسہ کے ذریعے ثابت کیا جا سکے؟ کیا کوئی حتمی سچائی موجود ہے؟ کیا سچ وہ ہے جو کچھ اہل عقل و شعور اور بڑے مذہبی رہنماء ہمیں بتاتے ہیں یا سچ تبدیل ہوتا رہتا ہے؟ عقل تو ہمیشہ نئے نظریات پیش کرتی رہتی ہے اور عقلی سچ بھی بدلتا رہتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عقلی سچ ہی صحیح سچ ہے؟ اور ان کے روحانی اور علمی انکشافات پر مبنی شاہ ملندا اور ناگ سینا کے سوالات و جوابات پر مبنی کتاب 1890ء میں The Questions of King Milinda کے عنوان سے پالی زبان سے انگلش ترجمہ ٹی ڈبیلو ڈیوڈز T. W. Rhys Davids نے کیا اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے
Sacred Books of the East
کی سیریز کے تحت اسے شائع کیا تھا جبکہ اس نایاب کتاب کا اردو ترجمہ شریف کنجاہی صاحب نے کیا ھے اور اسے مقتدرہ قومی زبان نے “سوالات شاہ ملندا “کے عنوان سے 2003ء میں شائع کیا تھا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply