داستان بت پرستوں کی/ظفر اقبال وٹو

سفید رنگ کی سیڑھیوں کے دونوں طرف پیپل اور برگد کے درخت تھے اور یہ سیڑھیاں ایک اژدھے کی طرح پہاڑی کو اپنے حصار میں لئے چوٹی کی طرف جا رہی تھیں جہاں سونے سے بنے کلس والا ٹیمپل درختوں کے جھنڈ میں سے تھوڑا تھوڑا نظر آرہا تھا- یہ ٹیمپل بدھ مت کے پیشوا گوتم بدھ سے منسوب تھا جن کی جائے پیدائش “لوم بینی”نام کا قصبہ بھی نیپال میں ہے۔میرا نیپالی دوست بتا رہا تھا کہ کوئی زیادہ نہیں صرف ایک ہزار سیڑھیاں ہوں گی اور میرا دل یہ سُن کر ہی بیٹھا جا رہا تھا ،سیڑھیوں پر بندر پھر رہے تھے۔

دارلحکومت کھٹمنڈو کے مرکز میں واقع مندروں اور ٹیمپلز کا ایک پورا محلہ ہے جسے “دھوکا دربار “کہتے ہیں، یہیں پر مشہور زمانہ کھڑکیوں والا محل اور زندہ دیوی کا گھر ہے جو کہ ایک نابالغ بچی ہوتی ہے جس کا تعلق ایک خاص قبیلے کی ایک خاص نسل سے ہوتا ہے۔ بالغ ہونے پر یہ دیوی اپنی حیثیت کھو دیتی ہے اور اس جگہ نئی دیوی کو ڈھونڈا جاتا ہے، جس کیلئے ایک باقاعدہ رسم ہوتی ہے،کھٹمنڈو کے ساتھ ہی “بھگتوں” کا شہر “بھگتا پور” ہے۔ اس کا بھی صدیوں پرانا دھوکا دربارہے جو کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

نیپالی لوگ بہت ملنسار اور پاکستانیوں کے دوست ہوتے ہیں۔ اکثر بڑے ہوٹلوں میں نصرت فتح علی کے پورٹریٹ لگے ہوتے ہیں، غلام علی کی عزلیں خصوصاً ” چپکے چپکے” اور حیدر علی کا “پرانی جینز اور گٹار” ہر دوسرے نیپالی کو آتا ہے،رمیض راجہ کی کمنٹری کے فین ہیں۔

نیپال دنیا کا وہ ملک ہے جہاں بتوں کی تعداد انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے، یعنی کروڑوں کی تعداد میں بُت ہیں۔  ہر گلی محلے دروازے میں ، سیڑھیوں دروازوں پر   ، نیپال دنیا کی واحد ہندو ریاست ہے،یہ واحد ملک ہے جس کا جھنڈا چوکور کی بجائے تکونی ہے۔

نیپال کی ایک اور وجہ شہرت “ماؤنٹ ایورسٹ” ہے جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے،نیپال کے دارالحکومت کا نام بھی منفردہے جسے سن کر کھٹمل یاد آجاتے ہیں یعنی “ کھٹمنڈو “۔

نیپال میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں، گورے ماؤنٹ ایورسٹ کے چکر میں اور جاپانی اور دوسرے لوگ بدھا سے منسوب جگہوں کی یاترا کے سلسلے میں، ائیرپورٹ پر صرف ایک بوتھ نیپالیوں کے لئے ہے جبکہ دسیوں بوتھ غیر ملکیوں کے لئے ہیں۔

پانی کی دنیا میں نیپال اپنی ہائیڈروپاور انڈسٹری کی وجہ سے مشہور ہے، ہمالیہ کے دامن میں کئی دریا اور نالے شور مچاتے بہتے ہیں جن پر پانی سے بجلی بنانے کے بہت سے بجلی گھر بنے ہوئے ہیں اور کہی زیر تعمیر ہیں۔ دنیا بھر کے ہائیڈروپاور انجینئر خصوصا ً ناروے کی کمپنیوں نے یہاں ڈیرے لگائے ہوئے ہیں۔

نیپال کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 42 ہزار میگاواٹ ہے لیکن کمزور معیشت اور سیاسی بے چینی کی وجہ سے پانی کے بجلی گھروں پر زیادہ کام نہیں ہُوا، جس کی وجہ سے نیپال ابھی تک 2ہزار میگاواٹ بھی بجلی سے پیدا نہیں کر رہا۔ انڈیا نیپال سے مل کر بجلی بنانے کے کئی بڑے منصوبے لگانے کے پروگرام بنا چکا ہے۔

میرا دورہ بھی بجلی گھروں سے متعلق ایک عالمی کانفرنس (2010)کے سلسلے میں تھا۔ اس  دوران کھٹمنڈو یونیورسٹی، بجلی کے ذمہ دار قومی ادارے، تحقیقاتی اداروں اور ہمالیہ سلسلے کے اندرکئی مکمل اور زیر تکمیل پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے بھی دیکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دورے کے اختتام پر  ایک ہفتہ مزید گھومنے پھرنے میں لگایا تھا۔ نیپال کے کھانے بھی بڑے مزے کے ہوتے ہیں جس میں شمالی برصغیر کے کھانوں سے لے کر تبت تک کے کھانوں کی ورائٹی مل جاتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply