میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(12)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

قسط ۱۲

قفس میں ، غم وخوشی کے ایام

اس قفس یعنی میرٹھ کیمپ ۲۸ میں جہاں خطوط نے ہمیں باہر کی آزاد فضا میں بسنےوالے پیاروں سے جوڑ کے ہماری بے جان اور بے رونق زندگیوں میں رنگ گھولے وہاں مذہب ا ور ثقافت سے وابستہ اہم مذہبی دنوں کو منانے کی آزادی نے روحانی طاقت بھی دی۔اپنی ثقافت کے  اظہار کا اثر مثبت طور پہ ان پہ تو ہُوا ہی جو اپنے خاندان والوں کےساتھ تھے ، لیکن ان پہ بھی ہُوا جو خاندان سے دور تنہائی  میں اسیری کاٹ رہے تھے۔ وہ بھی جن کے خال خال ہی خط آتے تھے۔ میں نے انتظامیہ سے رضاکارانہ طور پہ ان لوگوں کو خطوط پہنچانے کی ذمہ داری لے لی تھی، جو خطوط کی تقسیم کے وقت یا توجسمانی طور پہ علیل تھے اور یا ابّی کی طرح یاسیت میں مبتلا۔

مذہب کوئی  بھی ہو، بنی نوع انسان کی تاریخ اور اس سے وابستہ ثقافت خوشی اورغمی کے تہواروں سے جڑی ہوئی  ہے۔ ایک مذہب ہونے کے باوجود مذہبی اور ثقافتی خاص دنوں کے منانے کے طریقے بھی جدا جدا ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب دنوں میں ایک بات جو مشترک ہوتی ہے وہ ہے انواع و اقسام کے کھانے ۔ دیکھا جاۓ تو ساری جدوجہد اس پاپی پیٹ سے ہی تو وابستہ ہے۔زبان کا ذائقہ اور پیٹ کی آگ سے بڑھ کر انسانیت کوجلانے والی آگ اور کیا ہوگی بھلا؟

میں نے دیکھا کہ جب وہاں ڈیڑھ سال بعد بکری کا سالن پکنے لگا اور فی کس دو بوٹیاں ملتیں  تو لوگ اس بات پہ جھگڑنے لگتے کہ ان کی بوٹی کا سائز چھوٹا ہے ۔ پھر کوئی  امن پسند اپنی بوٹی دے کر معاملہ رفع دفع کرتا۔اسی طرح اگر کسی کی روٹی جلی ہوئی  ہوتی تو وہ لڑ پڑتا۔ شاید اصل بات ذہنی جھنجھلاہٹ اور غصہ تھا جو غیرشعوری طور پہ اس قید کی دَین تھا۔گو وقت کے ساتھ اسکی شدت میں کمی ہورہی تھی۔

ہر دو ہفتے  بعد کیمپ کے گیٹ پہ راشن کی بوریوں سے   بھرا  ٹرک  آتا۔   جن میں دالیں، آٹے ، شکر اور سبزیاں وغیرہ ہوتیں۔ اب جو پچھلی چیزیں بچ جاتیں تو ان سے صبح میں چاۓ کے ساتھ ہمارے لیے کبھی کبھار ناشتہ کااہتمام بھی ہوجاتا۔

محرم کے ایام عزا :

قید کے بائیس ماہ میں دو محرم اور دو رمضان گزرے۔ ہم ۲۸ جنوری کو بقرعید منا نے کےبعد کیمپ میں تین فروری کو پہنچے تھے ۔ اس طرح وہاں محرم بقرعید کے بیس دن بعد۱۶ فروری سے شروع ہوا۔اس ماہ کی اہمیت سب ہی کے لیے مقدم تھی لیکن اہل تشیع نےایام عزا کے اہتمام کے لیے کیمپ کے بیچ میں ، ایک کھلے میدان میں پہلی مجلس برپاکی۔ جہاں ذاکر کے لیے منبر یا کرسی تو نہ تھی لیکن وہاں ایک بینچ جیسا بنا تھا۔ ہم سب زمین پہ بیٹھ گئے اور نرم خو انداز میں انیس زیدی صاحب نے بینچ پہ بیٹھ کےذاکری کی ۔ یہ صاحب پی آئی  اے کے ملازم تھے۔ ان کی عمر جیسا کہ اُس وقت مجھےمحسوس ہوا ،کوئی  ۳۸ سے ۴۰ برس رہی ہوگی۔

چونکہ مجلس کے اہتمام کی پیشگی اجازت کیمپ میں فوج کی انتظامیہ سے نہ لی گئی تھی۔ لہٰذا جب دوران مجلس نعرہ حیدری یا علی کے نعرے لگے تو کیمپ میں ڈیوٹی کرنےوالے انڈین افسران نے سیٹی بجا دی۔ جو کسی غیر معمولی سرگرمی پہ بجائی  جاتی تھی، کوئی  بھی مشتبہ کارروائی  فوج کو چوکنا کردیتی ۔ اکثر تو دو تین بجے رات کو اس شُبہ  میں سیٹی بج جاتی کہ کوئی  قیدی کم ہے ۔ اور ہم سب کی گنتی ہونے لگتی۔اس دن سیٹی بجنے کے بعد سب مجلس سے اٹھ کے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔اور گنتی ہونے لگی۔پھر ہمارے کیمپ کمانڈر محبوب عالم صاحب نے فوج کی انتظامیہ کو بتایاکہ یہ ماہ محرم ہے اور اس ماہ میں ان مجالس کا اہتمام ہوتا ہے۔صورتحال معلوم ہونےکے بعد انہوں نے اجازت دی اور ہدایت کی کہ زور سے نعرے نہ لگائیں باقی سب ٹھیک ہے۔

گو میں اتنا کم عمر نہ تھا لیکن مجلسوں سے اتنا  زیادہ بہرہ ور نہ تھا۔ جب ہم صدرگھاٹ میں رہتے تھے وہاں کی آبادی بنگالی تھی ۔ ان میں کوئی  بھی اہلِ  تشیع نہ تھے۔لیکن وہاں سے جب ہم میر پور ، بہاریوں کی آبادی میں منتقل ہوۓ اور نو ماہ کا عرصہ گزارا، تو ہمارے پڑوس میں ہی کلّن چچا اور عباس چچا رہتے تھے جو اہل ِ تشیع تھے ۔ان کے گھر مجالس کا سلسلہ رہتا تھا ،جہاں ہم جاتے ۔فرش عزا پہ بیٹھ کے مجلس سنتےاور کچھ تاریخ ِ کربلا کا علم بھی حاصل کرتے۔

اب دوسری بار یہاں مجالس سننے کا موقع  ملا ۔ اس سے اگلے برس ۱۹۷۳ء میں بھی محرم جنوری میں آیا ۔ دونوں سال محرم کیمپ میں کسی قسم کا تفرقہ اور منافرت  نہ دیکھی۔ البتہ اگلے برس کا محرم پچھلے سال کے محرم کے مقابلے میں زیادہ اہتمام سےمنایا گیا۔ مثلاً  قیدیوں نے اپنے کرتوں کو کالا رنگنے کی اجازت لی تاکہ سوگوارانِ  امام سیاہ لباس دوران مجلس پہن کر مجلس میں شرکت کر سکیں۔ ۔ واضح ہو کہ قیدیوں کوکبھی بھی مخصوص لباس کے علاوہ کچھ اور پہننے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن محرم میں کالے لباس کی اجازت انسانیت کا ثبوت تھا۔ خواتین کے لیے مجلس کا اہتمام کسی ایک بیرک میں ہوتا ۔ اس طرح مردانہ زنانہ مجالس الگ الگ ہوتیں۔

پہلے محرم میں بعد مجلس تبرک باٹنے کی صورت نہ تھی ۔ صرف دعاؤں کا نذرانہ تھا۔جو شرکت کرنے والوں کو پیش کیا جاتا۔ مگر چونکہ کچھ ماہ بعد ٹوکن ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا تو لوگوں نے شروع سے ہی اپنے ٹوکن  جمع کرکے مجلس کے شرکاءکو چاکلیٹ ، سوجی کے حلوے  کے قتلے جیسی چیزیں بطور تبرک باٹنے کا اہتمام کیا۔اس طرح جب ہم سب وطن سے کٹے اور قید و بند کی فضا میں بے بسی محسوس کر رہےتھے ۔مذہب اور وابستہ ثقافت نے ہم سب کو اپنی جڑوں سے پیوستہ رہنے اور طاقت ورمحسوس کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply