قلب ماہیت(2)-شہزاد ملک

افضل صاحب اور چند دوسرے دوستوں سے راکیش کے قبول اسلام کے معاملے میں مشورہ کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ اس بارے میں شہر کی بڑی مسجد کے امام صاحب کی رائے لی جائے کیونکہ یہ ایک حساس مسئلہ تھا اس بارے میں وہاں کے ملکی قوانین کا خیال بھی رکھنا تھا اگلے دن ملک صاحب اور افضل صاحب کے علاوہ تین اور لوگوں کا وفد امام مسجد کی خدمت میں حاضر تھا انہوں نے کہا کہ مذہب ہر انسان کا انفرادی معاملہ ہے اگر کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے تو ملکی قوانین اس میں حائل نہیں ہوں گے البتہ دونوں میاں بیوی کا نکاح اسلامی طریقہ سے پڑھا کر اسے کورٹ میں رجسٹر کرانا پڑے گا یہ اطلاع لے کر وفد راکیش اور ریحانہ کے پاس ہرگیسہ کلب گیا ان سے بات چیت کے بعد طے پایا کہ جمعہ کے روز نماز سے پہلے راکیش ان سب لوگوں کی ہمراہی میں بڑی مسجد جا کر امام صاحب کے ہاتھوں اسلام قبول کرے گا اور عصر کی نماز کے بعد مسجد میں ہی ان دونوں کا نکاح ہوگا
اب ہماری بڑی بہنوں والی پاکستانی رگ پھڑکی دو دن بعد جمعہ تھا میں جا کر ریحانہ کو اپنے گھر لے آئی جی ہاں نکاح سے پہلے دلہا دلہن کا پردہ ہونا چاہئیے ،راکیش اپنے گھر پر ہی رہا دونوں کو یہ وقت گذارنا مشکل لگ رہا تھا ان کا بیٹا پریشان تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر ادھر کیوں آگئے ہیں جمعرات کی رات کو میں نے اصرار کرکے ریحانہ کو مہندی بھی لگائی۔
جمعہ کے دن افضل صاحب راکیش کو مسجد میں لائے ادھر سے باقی لوگ بھی پہنچ گئے راکیش کو وضو کرایا گیا اس کے بعد امام صاحب نے اسے کلمہ پڑھا کر دائرۂ اسلام میں داخل کرلیا اور اس کا اسلامی نام سلیمان رکھا گیا ۔جمعہ کی نماز کے لئے مسجد میں جمع ہونے والے نمازیوں نے اس کو بہت مبارک باد دی ۔نماز جمعہ کے بعد امام صاحب نے سلیمان کے لئے دعائے خیر کی نماز کے بعد ملک صاحب ریحانہ کو لینے گھر آئے افضل صاحب اور باقی قریبی دوست سلیمان کے ساتھ مسجد میں ہی رہے۔
اس دوران میرے کہنے پر ریحانہ نے اپنی سب سے اچھی ساڑھی پہنی بڑا خوبصورت میک اپ کیا اور ہرگیسہ سے ہی خریدا جانے والا ہلکا سا نیکلس سیٹ پہنا، میں اسے تیار ہوا دیکھ کر حیران رہ گئی وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی میں نے اپنا فینسی دوپٹہ اس کے سر پر ڈالا اور ملک صاحب اسے لے کر مسجد چلے گئے نکاح کے وقت بہت قریبی چند لوگ شامل ہوئے امام صاحب نے نکاح پڑھایا خطبۂ نکاح کے بعد اعلان کیا کہ آج سے سلیمان اور ریحانہ مسلمان میاں بیوی ہیں شرکا کی کھجوروں اور کولڈ ڈرنک سے تواضع کی گئی اس کے بعد دلہا دلہن سمیت یہ قافلہ ہمارے گھر آیا اب دلہن کی رخصتی کا وقت تھا بڑی بہن کی حیثیت سے میں نے تھوڑا سا اہتمام کیا ہوا تھا اپنا نیا جوڑا ریحانہ کے لئے نکال کر رکھا ہوا تھا سلیمان کے لئے مارکیٹ سے پینٹ شرٹ اور ان کے بیٹے کے لئے بھی کپڑے پہلے سے منگوا کر رکھے ہوئے تھے وہ انہیں دئیے گھر پر بنے ہوئے گلاب جامن ان کو مٹھائی کے طور پر ساتھ کئے اور مغرب کے بعد انہیں رخصت کردیا۔ رخصتی کے وقت ریحانہ میرے گلے لگ کر رونے لگی یہ خوشی کے آنسو تھے آج وہ اپنے ضمیر کے بوجھ سے آزاد ہوئی تھی ندامت اور گناہ کا احساس جو ہر وقت اس کو کچوکے لگاتا رہتا تھا اس کی اذیت سے نجات ملی تو وہ ہلکی پھلکی ہوگئی وہ ہم سب کی بے حد شکر گذار تھی کہ سب نے اسے راہ راست دکھائی
اگلے ہی دن ہرگیسہ کی ہندو کمیونٹی میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ راکیش اپنا آبائی دھرم چھوڑ کر مسلمان ہوگیا ہے اس خبر نے ان میں خاصا غم و غصہ پھیلا دیا وہ راکیش پر سخت برہم تھے کہ وہ اپنی بیوی کے کہنے میں آکر اپنے دھرم سے پھر گیا ہے ۔

ایک دن ریحانہ اور سلیمان کچھ خریداری کرنے مارکیٹ گئے تو ہندو دوکان داروں نے ان کا گھیراؤ کر لیا اور انہیں سخت برا بھلا کہا اس دن کے بعد ریحانہ مارکیٹ نہیں گئی ضرورت کی چیزیں سلیمان لاتا اور اس کی کوشش ہوتی کہ ہندوؤں کی بجائے صومالی دوکان داروں سے سودا لائے ہم نے محسوس کیا کہ مارکیٹ کے ماحول میں کشیدگی سی آگئی ہے غیر ملک ہونے کی وجہ سے اگرچہ کوئی کچھ کر نہیں سکتا تھا تاہم سلیمان احتیاطی طور پر ہرگیسہ کلب سے کم ہی باہر نکلتا تھا ہمارا گھر بھی مارکیٹ سے دور تھا اس لئے وہ ہماری طرف آجاتے تھے یا ہم ادھر چلے جاتے تھے اپنے ہم وطنوں کے غیر دوستانہ رویے کی وجہ سے اب ریحانہ اور سلیمان کے مسلم کمیونٹی کے ساتھ تعلقات زیادہ ہوگئے تھے ہمیں ایسا لگتا تھا جیسے اس اجنبی شہر میں ہمارے اپنوں کا ایک گھر بن گیا ہے اسی طرح ملتے ملاتے وقت پر لگا کر اڑ گیا اور سلیمان کا پیپسی کولا کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ ختم ہوگیا اس نے بڑی کوشش کی کہ دوبارہ سے اسے کنٹریکٹ مل جائے مگر کامیابی نہ ہوئی اور مایوس ہوکر انہوں نے واپسی کے لئے رخت سفر باندھنا شروع کردیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دونوں میاں بیوی کو ڈر تھا کہ بھارت میں جانے سلیمان کے قبول اسلام کا کیا رد عمل ہوگا لیکن وہاں جانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا پورا مہینہ ان کی الوداعی دعوتیں چلتی رہیں اور ایک صبح وہ ہرگیسہ ائر پورٹ پر روانگی کے لئے کھڑے تھے ہمارے سمیت ان کے اور دوست بھی انہیں الوداع کرنے کے لئے موجود تھے سب سے مل کر ریحانہ میرے پاس آئی اور میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مجھے بھی بہت رونا آیا اس وقت میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ ایک لڑکی جو نہ میری ہم وطن تھی نہ اس سے کوئی خونی رشتہ تھا اس کے لئے میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب کیوں امڈا آرہا تھا شاید انسانیت کا رشتہ تمام رشتوں سے ذیادہ مضبوط ہوتا ہے ہمارے بچوں سے بھی وہ بہت جذباتی ہوکر ملی اور پھر مسافروں کی لائن میں جا کھڑی ہوئی جہاز میں داخل ہونے سے پہلے آخری سیڑھی پر کھڑے ہوکر دونوں نے ہاتھ ہلائے اور آنسو پونچھتے جلدی سے اندر چلے گئے ہم لوگ وہاں اس وقت تک کھڑے رہے جب تک طیارہ فضا میں بلند ہوکر نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا۔ بوجھل دلوں کے ساتھ ہم واپس آئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply