ایک دفعہ کا ذکر ہے والی زندگی (1)-یاسر جواد

کچھ ہفتے پہلے ایک سینئر ریٹائرڈ دوست نے یوں ہی کہا کہ ’’یار یہ بتاؤ کہ کیا مصروفیات ہونی چاہئیں؟ دن گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صبح واک کر لی، شام کو واک کر لی، دو چار گھنٹے کچھ پڑھ لیا، پھر بھی بہت سا وقت باقی بچا رہتا ہے۔‘‘
تب میں نے کہا کہ تھوڑا سوچ بچار کروں گا، اور کئی ہفتے تک یہی سوال بار بار ذہن میں گونجتا رہا۔ ہم اپنی زندگیوں کے گزرے برسوں پر نظر ڈالیں تو اکثر کہیں کوئی پلان نظر نہیں آتا۔ شاید تب پلان کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، زندگی اور معنی تب ایک ہی جگہ پر، باہم رچے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن تیس تا پینتیس سال عمر کا انسان چالیس تا پینتالیس اور اکاون تا بچپن سال کے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔

اگر آپ مذہبی آدمی ہیں، پھر تو کافی کچھ حل ہو گیا: بس کولہوں پہ ہاتھ رکھ کر بہوؤں دامادوں کو عقل کی بے کار باتیں اور اخلاقی اصول سکھائیں، نماز پڑھنے کی تلقین کریں، روزے پر زور دیں، پوتوں کو ساتھ لے کر گلی میں نکلیں اور رات کو حوروں سے ملاپ کے سپنے دیکھیں۔ معاملات کافی آسان ہیں۔ لیکن اگر آپ اِس جیسی کند روایت پرستی نہیں رکھتے تو معاملات اپنے ہاتھ میں لینا پڑیں گے۔

پینڈورا نے اپنے حوالے کیا گیا صندوق کھول کر انسانیت کے لیے مصیبتیں ہمیشہ کے لیے کھلی چھوڑ دی تھیں۔ پینڈورا کو زیئس نے ایپی میتھیئس کے سپرد کیا تھا جس کا بھائی پرومیتھئس آسمان سے انسانیت کے لیے آگ چرا کر لایا تھا اور دیوتاؤں نے اُسے بطور سزا ایک چٹان سے باندھ کر عقاب کو اُس کا کلیجہ نوچتے رہنے پر مامور کیا۔ پرومیتھئس نے ہی وہ صندوق اپنے بھائی کو دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اِسے نہ کھولا جائے۔ مگر پینڈورا نے کھول دیا۔ صرف ایک چیز تھی جو صندوق کے اندر ہی رہ گئی، اُمید!

مجھے لگتا ہے کہ چالیس سال عمر کے بعد سے اس اندر پڑی رہ گئی چیز کو ہی ٹٹولنے اور اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ آپ مابعدالطبیعات کے ایسے سمندر میں نکل جائیں گے جہاں عقل کی بہت سی کشتیاں ڈوبی پڑی ہیں۔

ٹیری ایگلٹن کے مطابق اساطیر ’’آغاز میں۔۔‘‘ اور کہانیاں ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔ اساطیر قطعیت دیتی ہیں اور کہانیاں ہمارے آغاز کو لازمانی اور لامکانی میں لے جاتی ہیں۔ اسی لیے جب ہم ایک آغاز والی اساطیر اور مابعدالطبیعات میں پناہ ڈھونڈتے ہیں تو ابد کے کنارے سے نیچے گر جاتے ہیں۔
جبکہ زندگی میں کنارے نہیں ہوتے۔ جب سال ڈھلیں تو اِس کے کھیتوں کی  طرف دوبارہ دیکھنا پڑے گا اور سوچنا ہو گا کہ راستہ بنانے اور آگے بڑھنے کے لیے ان کھیتوں کو تقسیم کرنے والی جو وَٹیں تھیں (یا بنّے تھے) وہ کھیتوں کا حصہ تھے یا نہیں؟

ضروری نہیں کہ ہم یہ کام کسی خاص عمر کا ہندسہ پا لینے پر ہی انجام دیں۔ پیچھے جا کر خود کو سامنے سے آتے ہوئے بھی ملا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply