صیقل/مختار پارس

درختوں کے پیچھے سے در آتی ہوئی شفق کی سرخی جب رخ تر پر حیا بن کر اترتی ہے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ منظر وفا کی علامت ہے یا جفا کا عذاب۔ زور کی ہنسی بھی آنکھیں تر کر دیتی ہے اور درد جب بڑھ جائے تو چشم نم منظر دھندلا دیتا ہے ; دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ خوشی تنہائی کا سرمایہ ہے اور غم بھی اکلاپے میں سرفراز ہوتا ہے۔ ہجوم کسی کو سہارا دینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ انقلاب ہمیشہ ایک کونپل سے پھوٹتا ہے اور پھر صد برگ ہو جاتا ہے۔
صد شکر صیاد کہ تو نے گرفتار کیا۔ مگر تنہائی کی قیمت لگائی بھی تو کیا ! وہ ہرے رنگ کے تازہ پھوٹتے برگ نگاہ سے دور کر دینے سے کسی کے سفر کو کہاں روکا جا سکتا ہے۔ رات امڈ آئے تو آنکھیں بند ہو سکتی ہیں مگر آنکھیں موند لینے سے گردش زمین پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ جس خانہ خراب کے پاوں میں چکر ہو اسے بیڑیاں نہیں باندھ سکتیں ۔ زندگی صرف ایک آنکھ کے اشارے سے نظام عالم کو تہہ وبالا کر سکتی ہے۔ اس زمین پر موجود ہر شخص اسی زمین سے اختیار لیتا ہے ۔ کبھی وہ اختیار کا موجب بن جاتا ہے اور کبھی اختیار کی زد میں آ جاتا ہے مگر میخانے میں ساقی کا موقف کبھی نہیں بدلتا۔
مرکز نگاہ ہونے کا احساس صرف التباس ہے۔ سب ایک دوسرے کے مرکز ہیں اور کوئی کسی کا مرکز نہیں ۔ نہ کوئی ابتدائے انتہا ہے اور نہ کوئی انتہائے ابتدا کہ پہلے انتہائی مرکز کو کوئی دیکھتا نہیں اور بعد کی ابتدا کی بابت کوئی سوچتا نہیں ۔ جہاں تک نگاہ جا سکتی ہے اسے انتہا نہیں کہا جا سکتا ۔ اس خاک زار میں ہر شخص کی اپنی ابتدا ہے اور اپنی انتہا ۔ اپنی ساعتوں اور اپنی سکتوں کو پورے جہان کی سرحدیں کہہ دینے سے کوئی مرکز تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ تخلیق جس آنکھ پر منکشف ہوتی ہے، صرف وہ چندھیا جاتی ہے۔ خدا کے دیدار کے انتظار میں بیٹھے لوگ اپنے پاس بیٹھے اداس اجنبی کے دل میں نہیں جھانک سکتے اور کہتے ہیں کہ طریقت کی منزلیں طے ہو گئیں !
خدا سے محبت کی وجہ اس کی مہربانیوں میں پنہاں ہے مگر لوگ خدا بننے کی کوشش میں نامہربان ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی گرفت سے نکلنا مشکل ہے۔ خدا تو رزق دے کر بے نیاز ہو جاتا ہے، مگر لوگ طعام دے کر طعن و تشیع نہ کریں تو حساب برابر نہیں ہوتا۔ لوگ نظر میں رکھتے ہیں اور اوجھل بھی نہیں ہونے دیتے۔ خدا تو تنہائی میں بھی مل جاتا ہے، رجال تو ہجوم میں بھی نہیں ملتے۔ یہ خود سے دور بھاگ جانے والے کو دیوانہ کہیں گے مگر اپنے درمیان کسی دانش کو پنپنے نہیں دیں گے ۔ صرف ایک مقصد حیات ہے جو انسان کی انسانوں کے درمیان رہنے کی وجہ ہو سکتا ہے ورنہ تخلیق اور تکمیل کے درمیان فساد اور عناد کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ بجز ارادہ تعمیر کساں، نجات انساں ممکن کہاں؟ مسجد میں جانا ممکن نہیں کہ وہاں بھی لوگ خدا بن کر علم و عقل تقیسم کرنے کے درپے ہیں ۔ کلیسا اور کعبہ میں بھی کسی مصلوب کا تن اور کسی طائف کے سنگسار کا قصہ سنایا جاتا ہے۔ خدا مہربان ہے؛ مگر لوگ خدا کو بھی مہربانی کرتے ہوئے دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔
سوچ مستعار لی جائے تو دیدہ ور کے گلے کا پھندہ بن سکتی ہے۔ ایک فرد واحد اس استعمار کے بوجھ تلے دب جائے تو شاید وقت کی جبین پر کوئی شکن نہ ابھرے لیکن اگر ایک عہد ادھار کے استعاروں میں سر چھپاتا ہو تو پھر حیف ہے۔ ہر زمانہ اپنی سوچ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے والے اس کے دشمن اسی لیے ہوتے ہیں وہ مختلف سوچتے ہیں ۔ آنے والے زمانے بھی اس سے سروکار نہیں رکھنا چاہتے کہ ہر آئیندہ انہیں پائیندہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ انقلاب صرف ساعت موجود میں ہے؛ جو اس کو پا لیتا ہے وہ ہجوم کو لوگوں کی گرفت سے نکال لیتا ہے، جو اس ریت کو اپنے ہاتھ سے گرا بیٹھتا ہے، اس کے پاس سر پر خاک ڈال کر ، لوح و قلم کو کوسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کارساز بھی کسی نہ کسی چارہ گر کی تلاش میں رہتا ہے؛ وہ نہ ملے تو کسی زمانے میں، کسی ویرانے میں، کسی یارانے میں، کوئی سوچ نہیں بدل سکتی، کوئی معجزہ کہیں رونما نہیں ہو سکتا۔
ہر وہ آنکھ جس میں محبت رہے گی، وفادار رہے گی، ہر وہ دل جس میں زرناب رہے گا، عذاب سہے گا۔ جسے ایک جگہ رہنا ہے، صرف وہی دوست بنا سکے گا۔ مسافر محبت نہیں پال سکتا کہ اسے اجنبیت سے غرض ہے اور اسے کوسوں دور جانا ہے۔ مقیم کو ہر اس شخص سے محبت ہے جو سفر میں ہے۔ میں اسے جانتا نہیں مگر مجھے اس سے محبت ہے۔ جسے میں جانتا ہوں، اس سے دوری کی آخر وجہ کیا ہے ؟ وہ جب مجھے آنکھ بھر کر دیکھتا ہے تو میں نظر کو لوٹانا مناسب نہیں سمجھتا۔ وہ مجھے اپنی کملی سے نشانیاں نکال کر میرے حوالے کر دیتا ہے تو پھر بھی میں اس کی طرف دیکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ پھر جب وہ ایک دن رخ موڑ لیتا ہے تو میں تڑپ جاتا ہوں، گڑگڑاتا ہوں، سر پٹختا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے معاف کر دے گا۔ وہ پھر معاف کرنے پر قادر ہے اور پھر معاف کر دے گا ۔ میرا اس سے کوئی اختلاف نہیں مگر میرا خود پر اختیار نہیں ۔ میں ہجر کے لمحوں میں پھر وصال کو بو دیتا ہوں کہ میرے سوال کو زوال نہیں اور میرے جمال کو کمال نہیں ۔ کس کو کس سے محبت ہے ، کیا یہ اب بھی کوئی معمہ ہے؟

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply