معاشرتی بگاڑ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد واہ کینٹ

قصہ تعجب خیز ہے آج دنیا میں معاشرتی بگاڑ کی وہی تصویر دیکھنے کو مل رہی ہے جو کبھی زمانہ نوح کے لوگوں نے بنائی تھی۔جب زمین ظلم و ستم اور ناراستی کا لبادہ اوڑھ لے تو سمجھ لو کہ خدا کا قہر و غضب نازل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
موضوع کی پشت پناہی کے لیے یہ سوال شعور و آگاہی کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے کہ زمانہ نوح پر خدا کا غضب کیوں بھڑکا تھا؟ اگر اس بات کا کھوج لگائیں تو یہ جواب تلخ ، کڑوا اور دانتوں کو کھٹا کر دے گا۔اگر اس بات کو الہاتی تناظر میں سمجھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر بشر نے اپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا اور زمین خدا کے آگے ناراست ہو گئی تھی۔
آج بھی دنیا کے حالات و واقعات ہماری توجہ اس جانب مبذول کروا رہے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر انسانیت کی تاریخ و تقدیر بدلنے والی ہے۔کیونکہ ہمارے رہن سہن پر دنیا کے گہرے اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔
وقت کے ہاتھوں ہر انسان مجبور ہوتا جا رہا ہے۔خاص طور پر ہماری مادی پریشانیوں اور الجھنوں نے ہمیں معاشرتی بگاڑ کا حصہ بننے پر مجبور کردیا ہے۔
بلاشبہ حقائق ان باتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ یوں یوں دھرتی پر آبادی بڑھتی گئی اسی شرح سے بدی بھی عام ہوتی گئی جس کا نتیجہ آج کل بلکہ مستقبل میں دیکھنے کو ملے گا۔دنیا میں روز بروز عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔جدھر بھی نگاہیں مرکوز کریں ظلم و ستم کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔یقین نہ آئے تو دل تھام کر ان باتوں پر غورو خوض کر لیں تاکہ وقت پر کوئی فیصلہ کر سکیں۔
اس وقت دنیا تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ان باتوں کے ساتھ یہ کہنا بھی واجب ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ہے کہ قدرتی آفات بھی مسلسل حرکت پذیر ہیں۔
خدا نے زمین پر ایسی آفات نازل کرنا شروع کر دیں جہاں وائرس اور بیکٹیریا نے انسانوں کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔انسان پردیسی اور مسافر ہے یہ اس کا اصل وطن نہیں ہے بلکہ اس کا اصل وطن آسمان ہے۔ ہمارا قیام تو دنیا میں مختصر عرصہ کے لئے ہے۔لہذا انسان کو دنیا کی چیزوں ، کارناموں ، دریافتوں ، ایجادوں ، کمالات ،حاصلات اور ثمرات پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔
کیونکہ یہ سب کچھ عارضی ہے اور ایک دن دنیا کی نظر ہی ہو جائے گا۔ بلکہ ہمیں حکمت و دانائی کا ہاتھ پکڑ کر چلنا چاہیے کیونکہ جو اس کا ہاتھ پکڑ کر چلتا ہے اسے ٹھوکر نہیں لگتی۔حکمت سب سے بڑھ کر روشن خیال بناتی ہے جبکہ بے مروتی ، متضاد رویے ، منفی سوچ ، بیجا فخر اور کبڑاپن انسان کو چلنے پھرنے سے عاری بنا دیتا ہے۔ہم اکثر روزمرہ زندگی میں اپنے فرائض سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں اور ہم نے زندگی کو ایسے خطوط پر منتقل کرلیا ہے جہاں ہماری آخرت کو دوزخ کا کیڑا لگ جاتا ہے۔
بعض اوقات ہماری سوچ اور کام ایسے ہوتے ہیں جن کا انجام انگاروں پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اگر ہماری سوچ کھوٹی اور زنگ آلود نہ ہو تو دنیا میں ان گنت تبدیلیاں اور تعمیر و ترقی کے قافلے رواں دواں ہو سکتے ہیں۔ایسا کرنے سے دنیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، افلاس ، قتل و غارت ، گنڈہ گردی اور دہشت گردی جیسے عناصر کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے پاس وقت کم اور چیلنجز زیادہ ہیں۔ جن پر قابو پانے کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔آج وقت دہائی دے رہا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ہمارا ضمیر ہمیں مذمت و ملامت کر رہا ہے۔آئیں اس سے قبل بہت دیر ہو جائے اور ہم اپنی آخرت کے اہداف و مقاصد کھو دیں جو خدا نے ہماری ذات کے لئے مقرر کیے ہیں ایسے کڑے اور برے وقت میں وقت قریب ہے کی گردان یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ہماری توجہ اس جانب مبذول کروا رہی ہے کہ قیامت نزدیک ہے۔دنیا میں روز بروز نت نئی وباؤں کا سلسلہ ، نئی نئی بیماریاں انسانیت کا شیرازہ چاٹ رہی ہیں اور موت ہنگامی بنیادوں پر انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
ذیل میں معاشرتی بگاڑ کے مختصر بلکہ حقیقی تصویر پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ ہم وقت اور موقع کی مناسبت سے کچھ جان سکیں۔
* دنیا میں اقوام کے درمیان کشیدگی روز بروز بڑھ رہی ہے۔
* بے دینی کے بڑھ جانے سے بہتوں کی محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔
* زرخیز زمین اونٹ کٹارے اگا رہی ہے۔
* انقلاب کا سورج تاریک ہو رہا ہے۔
* سچے جذبات اونگھ رہے ہیں۔
* ظلم و ستم بے قابو ہو رہا ہے۔
* سچ جھوٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔
* جوش قلم لڑکھڑا رہا ہے۔
* امید کی کرنیں مدہم پڑ رہی ہیں۔
* سبت خون میں تبدیل ہو رہا ہے۔
* بے حسی اور بے بسی بڑھ رہی ہے۔
* گناہ کا شور آسمان تک سنائی دے رہا ہے۔
* تعلقات و روابط ایک دوسرے کے لئے بوجھ بن رہے ہیں۔
* خواہشات اپنا دم توڑ رہی ہیں۔
* مادہ پرستی بےقابو ہو رہی ہے۔
* قول و فعل میں تضاد و تعارض بڑھ رہا ہے۔
* انصاف اور میرٹ کا قتل کیا جا رہا ہے۔
* تفکرات کے باعث ہوش و حواس کھو ئے جارہے ہیں۔
* اخلاقی قدروں کی پامالی سرے عام ہو رہی ہے۔
* فرقہ بندیاں انسانوں کے درمیان تصادم پیدا کر رہی ہیں۔
* اشیاء میں ملاوٹ کا دھندہ عروج پر ہے۔
* روپیہ پیسہ ناجائز ذرائع سے کمایا جارہا ہے۔
* نفرت و فرق کی وباء بڑھ رہی ہے۔
* ایک دوسرے کے منھ پر الزام تراشیوں کا تھوک پھینکا جارہا ہے۔
* جسمانی ،ذہنی اور نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔
* تمناؤں کا آنچل ٹیڑھا ہو رہا ہے۔
* سود کا دھندہ عروج پر ہے۔
* فرائض سے غفلت برتی جارہی ہے۔
* عزت و دولت غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔
* مثبت سوچ کو دیمک چاٹ رہی ہے۔
* دسترخوان قے اور گندگی کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔
* تضاد و تعارض کی فضا دھوئیں طرف پھیل چکی ہے۔
* بے حیائی سرے عام راج کر رہی ہے۔
* آنکھوں سے حیا کا سرمہ غائب ہو رہا ہے۔
* ہاتھوں پر رشوت کی مہندی لگائی جا رہی ہے۔
* غربت گناہ کو جنم دے رہی ہے۔
* لڑائی جھگڑے خاندانوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
* سینہ و دل کے داغ روز بروز بڑھ رہے ہیں۔
* جھوٹ نفسیاتی طریقوں سے بولا جا رہا ہے۔
* ہر انسان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔
* ہمارا نصیب غیروں کے ہاتھ بک رہا ہے۔
* چاہتیں بناوٹی اور بے رنگ ہوگئی ہیں۔
* دلوں میں بدی کا خمیر اٹھ رہا ہے۔
* نشہ جوانیاں چاٹ رہا ہے۔
* عزم و شجاعت کے منصوبے ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔
* محبت بے کنارہ اور بے موج ہو رہی ہے۔
* سرخ خلیات میں سفید خلیات کی زیادتی ہو رہی ہے۔
* قوت برداشت کی طاقت ختم ہو رہی ہے۔
* روزانہ زنا بالجبر کے واقعات سننے کو مل رہے ہیں۔
* خوشی تلخیوں کے گھونٹ پی رہی ہے۔
* مزاج میں شورش اور تندی بڑھ رہی ہے۔
* سیدھی راہ میں کانٹے بچھائے جارہے ہیں۔
* میل جول بناوٹی ہوتا جا رہا ہے۔
* بدنوں کو شوگر اور ٹی بی کھا رہی ہے۔
* دنیا بھر میں جوشیلی اور نشیلی چیزوں کی خواہش بڑھ رہی ہے۔
* زبان اجنبی باتیں اگل رہی ہے۔
* شراب اور شباب کی محفلیں منعقد کی جارہی ہیں۔
* عیب جوئی کی عادت پختہ ہو رہی ہے۔
* ضمیر بے آواز ہو رہے ہیں۔
* علم غرور کو جنم دے رہا ہے۔
* اپنے غیر اور غیر اپنوں کا ثبوت دے رہے ہیں۔
* زندگی اور موت کا فاصلہ کم ہو رہا ہے۔
* دل طرح طرح کے غموں سے چھلنی ہو رہا ہے۔
الغرض جب عالم انسانیت ایسی کھیتی کا شکار ہو جائے تو اس میں اونٹ کٹاروں کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ جب ہمارا معاشرہ ایسی کیفیات و آثار سے دوچار ہوگا تو وہاں امن، محبت ،انصاف، مساوات، رواداری، ایمانداری، پرہیزگاری ،نیکی ،بھائی چارہ برائے نام ہوگا۔
افسوس ! چند لوگوں کے سوا باقی مال و دولت کے حصول کے لیے تڑپ رہے ہیں۔وہ اپنی آخرت تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ہماری سادگی اور معصومیت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے سامنے جب بھی کوئی انسان اپنی پارٹی یا تنظیم کا منشور پیش کرتا ہے تو ہم اس سے جنت کا خواب سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔
جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔لہذا ہمیں
*بھروسے کا نوالہ چبا چبا کر کھانا چاہیے تاکہ غیرضروری کثافتیں الگ الگ ہو جائیں*
آئیں! آج تھوڑا سا وقت نکال کر معاشرتی بگاڑ پر غور و خوص کریں شاید خدا ہم کو عقل دے دے اور ہم اس کرب سے بچ جائیں جس کا خمیازہ ہمیں آخرت میں بھگتنا پڑے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply