میری سہیلی میرا فخر /مدیحہ ریاض

میری اس سے تقریباً  پونے تین سال بعد ملاقات ہو رہی تھی ۔ میں اس سے  ملنے مچھیروں کی بستی میں قائم اس کے اسکول گئی ۔ وہ اس اسکول میں پرنسپل کے عہدے پر فائز تھی ۔ میں جیسے ہی اس کے اسکول پہنچی اس نے اور اس کے تمام اسٹاف نے میرا پُر تپاک استقبال کیا ۔ میں نے اس کے ساتھ اسکول میں کچھ وقت گزارا اور آیا کے ہاتھ کا بنا ہوا لنچ کیا، جو وہ اپنے اور پرنسپل صاحبہ کے لئے روزانہ اپنے گھر سے لاتی تھیں۔ لنچ کرنے کے بعد ہم پھر باہر کسی اچھی جگہ گھومنے پھرنے کے لئے روانہ گئے ۔ ہم شہر قائد کے ایک پوش علاقے میں بنے شاپنگ مال میں چلے گئے ۔میں اس سے ملاقات کے لئے پوری طرح تیا ر تھی ۔یا پھر یوں کہہ لیں کہ میں سر سے پاؤں تک برانڈڈ اشیاء سے لدی ہوئی تھی ۔ جب کہ وہ انتہائی سادہ حلیے میں تھی ۔ اس نے عام سا لباس اور عبایہ زیب تن کیا ہوا تھا۔ وہ عام سے لباس میں بھی باوقار لگ رہی تھی ، پُر سکون اور با اثر شخصیت کی مالک ۔ایسا نہیں تھا کہ وہ حیثیت میں مجھ سے کم تھی ۔ بلکہ وہ صاحب حیثیت تھی ۔ و ہ اسکول کی پرنسپل ہونے کے ساتھ ساتھ شہر قائد کی سرکاری جامعہ میں لیکچرار کے فرائض بھی انجام دے رہی ہے۔ وہ طبیعتاً  سادہ مزاج کی حامل لڑکی ہے اور سادگی ہی اس کا خاصہ ہے ۔  تعلیمی میدان ہو یا پھر عملی میدان کامیابی نے ہمیشہ اس کی قدم بوسی کی ۔ دوران تعلیم اس نے ذہنی آزمائش اور بحث و مباحثہ کے بے شمار مقابلہ جات میں حصہ لیا اور ہمیشہ کامیابی حاصل کی ۔ اس نے پاکستان ٹیلی ویژن اور دیگر نجی ٹی وی چینلز سے نشر ہونے والے ذہنی آزمائشی پروگراموں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اَن گنت مقابلے جیت کر اپنی کامیابی کا لوہا بھی منوایا ۔ وہ ایک چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا ہے ۔ اس کی ذہانت کا اندازہ پروفیسر صاحبہ کی اس بات سے لگائیے کہ جب انھوں نے اس سے کہا کہ بیٹا آپ کے پاس مجھ سے زیادہ معلومات ہے ۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے علاوہ وہ ایک نعت خواں او ر شاعرہ بھی ہے۔ وہ نعت خوانی اور شاعری میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے ۔ اس کی ان تما م کامیابیوں کے پیچھے محنت کے ساتھ ساتھ عاجزی و انکساری کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ جس نے اسے  کبھی گرنے نہیں دیا۔  وہ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ دوست احباب کا بھی فخر ہے ۔ بعض کم ظرف لوگ اس کی محنت سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس کے ہمراہ رہتے تا کہ اس کی محنت ان کی کامیابی بن جائے اور اساتذہ اکرام اور ہم جماعت کے سامنے واہ واہ کا میڈل ملے ۔ ایسے لوگ پانی کے بلبلے کی طرح ہوتے ہیں جو زیادہ دیر تک ٹک نہیں پاتے اور پھر ہمیشہ کے لئے منظر سے غائب ہو جاتے ہیں ۔جب کہ نام ہمیشہ محنت کرنے والوں کا ہی باقی رہتا ہے ۔ کامیابی ہمیشہ انہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جن کی نگاہیں بلندی پر ہوتے ہوئے بھی زمین پر ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ وہ خود اپنے بارے میں لکھتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس کا یہ شعر خود اس پر صادق آتا ہے کہ
مجھ کو افلاک پہ پرواز کی خواہش ہے مگر
میں زمیں زاد ہوں اوقات نہیں بھولتی ہوں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply