نظریاتی بیانیوں کی بحث کیوں شروع ہوئی؟/ داؤد ظفر ندیم

 سوشل میڈیا پر بہت سے دوست آج کل  ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے بحث کر رہے  ہیں کچھ دوست   اس کو لیفٹ اور رائٹ کی جنگ خیال کرتے ہیں اور اسے غلط طور پر ستّر کی دہائی کے مباحثے سے جوڑتے ہیں، ستّر کی دہائی کا مباحثہ واقعی لیفٹ اور رائٹ  کا مباحثہ تھا۔ اس مباحثے میں بنیادی بات مذہب اور ریاست کا تعلق نہیں تھا بلکہ اشتراکیت اور سرمایہ داری اور جاگیرداری کے مابین  تعلق  تھا جو لوگ سرمایہ داری کے مخالف تھے چاہے وہ مذہبی تعبیر کرتے ہوں یا اشتراکی، انھیں لیفٹ کہا جاتا تھا اور سرمایہ داریت اور جاگیرداری کے حامیوں کو رائٹ، جماعت اسلامی یا بعض دوسری مذہبی جماعتیں اس لئے رائٹ کی جماعتیں تھیں کہ وہ سرمایہ داریت اور جاگیرداری کو اسلام کا حصہ خیال کرتی تھیں اور ان کو جو خطرات درپیش تھے اس سے ان کو اسلام خطرے میں نظر آتا تھا، مگر موجودہ مباحثے کو کسی لحاظ سے لیفٹ اور رائٹ کا مباحثہ قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ مباحثہ ان لوگوں کے مابین ہے جو مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کی وضاحت کرہے ہیں، ان کو ریلیجیسٹ  اور سیکولر کہا جا سکتا ہے اور یہ مباحثہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ ایک طرف وہ دانشور ہیں جو ریاست کو مذہب سے جوڑتے ہیں، اور دوسری طرف وہ دانشور ہیں جو ریاست کو مذہب سے الگ خیال کرتے ہیں۔اس وقت دنیا میں اسلام، مسیحیت، یہودیت، ہندو مت اور بدھ مت بڑے مذاہب ہیں اور ان تمام ممالک میں جہاں ان مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے یہ مباحثہ موجود ہے۔ انڈیا میں ہندو مذہبی لوگ، یورپ میں بعض مسیحی گروپ، اسرائیل میں یہودی مذہبی جماعتیں اور عالم اسلام میں سیاسی اسلام کے نام پر منظم جماعتیں وہ جماعتیں اور گروہ ہیں جو ریاستی معاملات میں کسی مخصوص مذہب کی بالادستی چاہتے ہیں، سری لنکا اور برما میں یہی کام بدھ مذہبی لوگ کر رہے ہیں۔

اگر زیادہ گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ سب مذہبی لوگ کئی ضمنی فرقوں اور گروہوں میں منقسم ہیں اور یہ لوگ جب مذ ہب کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو دراصل اس مذہبی تعبیر اور فکر کی بالادستی کی بات کرتے ہیں جو وہ اپنائے ہوتے ہیں۔ وہ دوسری تعبیروں کو اور ان کے ماننے والوں کو اگر اپنی مذہبی سوچ کے حوالے سے اپنے مذہب سے کافر نہیں سمجھتے تو گمراہ ضرور خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ پوری دنیا میں مذہبی انتہا پسند نہ صرف دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ اپنے مذہب کے اقلیتی گروپوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں، چنانچہ ایک ملک میں ایک مذہب کے لوگ اگر اپنے ملک میں اپنی مذہبی سوچ کی فوقیت چاہتے ہیں تو وہ دوسرے ملک میں جہاں وہ اقلیت میں ہوتے ہیں وہاں وہ ایسےسیاسی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں جو سیکولر ہوتے ہیں۔ چنانچہ، انڈیا، سری لنکا، یورپ، حتی کہ اسرائیل میں بھی مسلمان سیکولر سیاسی گروپوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہی حال دوسرے مذاہب کے مذہبی گروپوں کا ہے۔

پاکستان میں جب سے ضرب غصب شروع ہوا ہے سیکولر دانشوروں نے یہ خیال کیا ہے کہ ریاست میں مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف صرف عسکری کارروائی کافی نہیں بلکہ ان کی مخصوص فکر اور سوچ کو بھی نشانہ بنانے کی ضرورت ہے، یہ سوال طے کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاست اور مذہب میں کیا تعلق ہونا چاہیے، اس لئے سوشل میڈیا پر سیکولر اور اسلامسٹ کے مابین ایک زوردار مباحثہ چل رہا ہے جس میں دونوں اطراف سے اپنے دلائل سامنے لائے جارہے ہیں، اس بات کی خوشی ہے کہ دونوں اطراف میں ایسے لوگ موجود ہیں جو شائستگی اور دلیل سے بات کرنا چاہتے ہیں مخالف کی بات سنتے ہیں اور اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک صحت مند روایت ہے جسے آگے بڑھنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاہم یہاں یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ عالم اسلام میں سیکولر اور اسلامسٹ کے علاوہ ایسے دانشور موجود ہیں جو مذہب سے گہرے تعلق کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کی سطح پر مذہب کو الگ ہونا چاہیے، وہ لوگ مذہب کو فرد اور معاشرے کے ساتھ جوڑتے ہیں جو کسی مخصوص ریاست سے نہیں جوڑا جا سکتا، اگر باقی دو گروہ اپنے آپ کو سیکولر اور اسلامسٹ کہہ کر اپنی پہچان کرواتے ہیں تو ان کو سیکولر اسلامسٹ کہا جا سکتا ہے، میں سمجھتا ہوں جہاں سیکولر اور اسلامسٹ لوگ اپنا نقطہ نظر دے رہے ہیں وہاں یہ سیکولر اسلامسٹ دوستوں کو بھی آگے بڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply