میٹرنٹی لیو چھ سال کی کیوں نہیں؟-شازیہ نواز

ایک نارمل اور ایبنارمل انسان میں کیا فرق ہے۔ مجھے ہمیشہ سمجھ آتی ہے جب میں ٹویٹر پر جاتی ہوں۔
ٹویٹر پر بہت ذہنی طور ہر ڈسٹرب یا unstable عورتیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو بنیادی سمجھ بھی نہیں ہے مگر جنونیوں کی طرح لکھتی جاتی ہیں۔ انکا لبادہ زیادہ تر یا فیمینزم ہوتا ہے یا ہیومن رائیٹس،مگر بہرحال وہ ذہنی طور پر نارمل عورتیں نہیں ہیں۔

اسکی   ایک اور  مثال دیتی ہوں۔
ایک خاتون نے لکھا کہ پاکستان میں عورتوں کی چھ مہینے کی میٹرنٹی اور باپ کی تین مہینے کی پیٹرنٹی لیو قبول ہو گئی ہے۔
کسی مرد بیچارے نے لکھ دیا کہ “یہ تو بہت زیادہ ہے۔ خاص طور پر آدمی گھر پر تین مہینے کیوں رہے گا۔ لوگ ایک کے بعد ایک بچہ کریں گے کیونکہ زیادہ لوگ تو کام نہیں کرنا چاہتے”۔

بس وہ عورت اسکے پیچھے ایسے پڑ گئی جیسے کہ بھڑوں کا پورا چھتہ ہے۔ اسکو بُرا باپ کہا، اسکے باپ کو بُرا کہا۔ یعنی جو منہ میں آیا بکتی گئی۔
اس قسم کی ذہنی طور پر ڈسٹرب عورتوں کے ساتھ بحث یا ڈیبیٹ کیسے ہو سکتی ہے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ انکی زندگی میں زیادہ کامیابیاں نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مشکل سے سروائیو کر رہی ہیں۔

ایسے لوگ جنہوں نے بزنس شروع کیے ہوں اور لوگ کام کے لیے رکھے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ بچے کی پیدائش پر اتنی لمبی تنخواہ کے ساتھ چھٹی یا تو حکومت دے سکتی ہے اور یا کوئی بہت ہی بڑی کمپنی۔
ایک اور بات سمجھنا  اس میں بہت ضروری ہے  کہ بچہ چھ مہینے میں خود مختار نہیں ہوتا۔ بچہ بہت سال بے بس اور کمزور رہتا ہے۔ خود کھانا بھی نہیں کھا سکتا۔ خود کو بچا نہیں سکتا۔ تو اگر میٹرنٹی لیو بچے کے لیے ہے تو چھ سال کی ہونی چاہیے۔ اگر ماں کی صحت کے لئے ہے تو ماں تو چھ مہینے بیمار نہیں رہتی۔ تو یہ چھ مہینے کا نمبر کہاں سے آیا؟؟
اسی طرح باپ کی ضرورت بھی بچے کو بہت سال ایسے ہی ہوگی جیسے کہ زندگی کے پہلے تین مہینے میں۔

ایک بات اور یاد رکھنے والی ہے کہ جب بھی کوئی کام کیے بغیر تنخواہ لیتا ہے تو وہ کسی اور کی جیب سے نکل رہی ہوتی ہے۔

میرے ساتھ ایک گوری ڈاکٹر کام کرتی تھی جو کہ ہر وقت یہ بہانہ کر کے بھاگتی تھی کہ اسکے پانچ بچے ہیں۔ اور پیچھے سے اسکا کام ہمیں کرنا پڑتا تھا۔
تو پھر سب نے ہی باتیں کرنا شروع کر دیں  کہ ہماری فرمائش پر تو پانچ بچے نہیں کیے۔

جس طرح اس عورت نے میرا استعمال کرنے کی کوشش کی یہ کہہ کر کہ “میرے پانچ بچے ہیں” ، وہ مجھے آج بھی یاد آئے تو ایک بری یاد کی طرح یاد آتا ہے۔

جب  آپ کام نہیں کرتے تو آپکا کام کسی اور کو کرنا پڑتا ہے۔ اب اگر کسی نے میری طرح ایک بچہ کیا ہو تو وہ کسی کے پانچ بچوں کا ذمہ دار کیوں بنے؟؟

یہ بات ایک حقیقت ہے کہ پریگنینسی کو عورتیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ امریکہ میں کئی عورتیں مجھے اپنے منہ سے بتا چکی ہیں کہ کیسے وہ خود یا انکی فیملی کی کوئی عورت بار بار پریگننٹ ہوتی رہی کیونکہ اس کے پیسے ملتے تھے، بچوں کے پیسے ملتے تھے اور صحت کی انشورنس مفت تھی۔

یہ سب مفت نہیں ہوتا۔ اس کے لیے میں اور  آپ پیسے دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم کام کر رہے ہوتے ہیں۔

جنہوں نے کام کرنا ہو، وہ تو بچے پر بچہ کرتے ہی نہیں ہیں۔
بہرحال اس سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ میں جب اپنی میڈیکل ٹریننگ کے لیے انٹرویو دینے گئی تو میڈیکل ڈائیریکٹر مجھے کہنے لگا کہ ہم دو ہفتے کی میٹرنٹی کی چھٹی دیتے ہیں مگر اچھی بات تو یہی ہے کہ ہماری ڈاکٹرز ٹریننگ کے دوران حاملہ  نہ  ہوں۔

میں نے سوچا کہ اس نے کتنی صحیح بات کی ہے۔ میں اور میرا شوہر دوسرا بچہ میری ٹریننگ ختم ہوگی تو کریں گے۔ اب ٹریننگ میں آپکو چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی بھی دینی پڑتی ہے۔ اس میں نو مہینے پریگننٹ رہنا نہ  آپکے لیے اچھا ہے، نہ  آپکی فیملی کے لیے، نہ ہی  مریضوں کے لیے، نہ  ہسپتال  اور  آنے والے بچے کے لیے۔

ٹریننگ میں پریگننٹ ہونا غیر ذمہ داری کے سوا کچھ نہیں۔
مگر اب یہی بات کسی ذہنی طور پر ڈسٹرب عورت سے کہہ کر دیکھو جو کہ فیمینسٹ کے لبادے میں کام کر رہی ہے، وہ چھوڑے گی نہیں آپکو۔
ایسے کیسز ہوئے ہیں کہ باس نے کہا کہ یہ وقت بچہ کرنے کا نہیں ہے تو عورتیں اخباروں میں ان کو بدنام کرنے پہنچ گئیں۔ ان کو bully کیا۔

تو ایک آئیڈیل سسٹم کیا ہے؟ جس میں بچے کے ساتھ ماں باپ رہیں جب تک کہ بچہ کافی حد تک خود مختار نہیں ہو جاتا؟
دو چیزیں یاد رکھنا ضروری ہیں۔
عورت کو اپنے شوق والی جاب کرنے کا حق ہے۔
مرد کو بھی آرام کرنے اور بچے کے ساتھ وقت گزارنے کا حق حاصل ہے۔
اور اسکو یہ بھی حق ہے کہ اسکی بیوی بھی گھر میں اِنکم لانے میں حصہ ڈالے اور وہ مرد ہو کر بھی گھر، بچے اور بچوں کے ساتھ کھیلنا انجوائے کر سکے۔

میرا خیال ہے کہ آئیڈیل سسٹم وہ ہے جس میں دونوں ماں باپ ہفتے میں تین دن کام کریں، مگر مختلف دن۔ جب ماں کام پر ہو تو باپ بچوں کے ساتھ وقت انجوائے کرے اور جب باپ کام پر ہو تو ماں بچوں کے ساتھ وقت انجوائے کرے۔ اور ہر شام کو ساری فیملی اکٹھی ہو۔
مگر اس وقت دنیا میں زیادہ سے زیادہ کی ہوس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سوشلزم کی قائل نہیں۔ مگر زندگی کی بنیادی سہولتیں تو سب کو میسر ہونی چاہئیں۔
لیکن شاید ایسی آئیڈیل دنیا کبھی نہ  بن پائے۔
تو تب تک کتنے عرصے کی میٹرنٹی لیو کافی ہے؟
دو ہفتے؟ دو مہینے؟ چھ مہینے؟ ایک سال؟؟ یا چھ سال؟؟ یہ کہنا مشکل ہے۔
ہر فیملی کو ایسے فیصلے اپنے حالات دیکھ کر کرنے چاہئیں کہ بچے کب کرنے ہیں اور کتنے کرنے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply