ادھوری عورت کی کتھا ۔۔مریم مجید ڈار

خود کلامی ۔۔۔

باہر کتنی ٹھنڈک ہے ناں ۔!!اور اندر اس آتش دان میں سلگتی آگ سے اڑتے جلتے بجھتے شرارے میں تمھاری آنکھوں میں دیکھتی ہوں ۔۔
تمھاری آنکھوں میں اس لیے کہ۔۔مجھے تمھارا قرب۔۔تمھاری بانہوں کی گرفت کسی اور سمت دیکھنے نہیں دیتی۔اس بستر پہ بھلے کشادگی ہی ہو۔مگر تمہاری آغوش کی مہرباں تنگی میں مجھے بس اتنی جگہ میسر ہے کہ میں سانسیں لیتی رہوں ۔ارے۔۔!!

اب تو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔۔!!! اف! میرے چہرے پہ تمھارے بالوں سے گرتی پسینے کی بوندوں نے سب اتنا دھندلا دیا ہے کہ آتش دان سے اڑنے والے آتشیں پتنگے قمقموں کا روپ دھارنے لگے ہیں ۔
تمھارے نفاست سے ترشے ہوئے ناخنوں کی چبھن مجھے اپنے شانوں پہ یوں محسوس ہوتی ہے جیسے بچپن میں تازہ بلوئے ہوئے زرد مکھن میں، میں اپنی انگلیاں دھنسا دیتی تھی ۔۔
اور تمھارے لب جو میرے سادہ کینوس سے بدن پہ نیلے گلابی پھول کھلاتے چلے جا رہے ہیں ۔میں چاہتی ہوں کہ انہیں ذرا دیر کو روک دوں ۔۔نہیں نہیں!! اس لیے نہیں کہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا بلکہ اس لیے کہ میں ان کی اس قدر زرخیزی کا راز پوچھ لوں ۔۔اتنے رنگوں کے پھول کہاں ہوتے ہیں بھلا؟؟

وصل کے لمحات بہت تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں ۔میں تمھارے بدن کی وحشتوں کو اپنانے لگی ہوں ۔شاید یہ وحشتیں مجھ میں صدیوں کی پیاسی کسی مینکا کی عنایت ہیں ۔یا کسی میرا کے عشق نے اول اول میرے من میں بسرام کیا تھا۔جو میں نار ستیلا ہوئی تمھارے گرد گھومتی ہوں ۔یا میں دروپدی ہوں جس کے سکھا کرشن کنہیا نے اجڑے باغوں میں ایسی مرلی چھیڑی تھی کہ پانچ پانڈو بھی دروپدی کو قابل بھروسہ نہیں لگتے تھے۔۔۔
اس کا بس ایک بھروسہ “تم” تھے۔۔۔سکھا تھا۔۔۔کرشن تھا۔۔۔

یہ کیا ہے۔۔۔کہ مجھ میں تمھارا بدن الہام بن کے اتر رہا ہے۔آہ!! پھولوں کی پگڈنڈی پہ چلتے چلتے پاؤں کن پھسلن بھرے راستوں پر تمھارے پیچھے پیچھے۔۔لرزتے ڈگمگاتے چلے جاتے ہیں ۔میرا ہاتھ تھام لو ناں !!!

بھاپ اگلتی۔۔گرم مرطوب دلدل مجھے نگل جانا چاہتی ہے۔۔۔کنہیا کی مرلی عین وسط قلب میں گونج رہی ہے اور گوپیاں پانی سے بے رنگ لباس پہنے محو رقص ہیں ۔۔

مجھے اب کچھ کچھ سردی لگ رہی ہے۔۔شاید آتش دان میں مزید لکڑیاں ڈالنے کی ضرورت ہے مگر !!! اب تم کو کیسے جگا سکتی ہوں بھلا؟ ؟ اور مجھے تو نیند آنے کی نہیں ۔۔۔تو میں تمھیں دیکھتی ہوں ۔ہاں یہ ٹھیک ہے!!! کہ صرف یہی وہ وقت ہے جب تم مجھے پورے میسر ہوتے ہو۔۔جانے ہوتے بھی ہو یا میرا وہم ہے ۔مگر!!! خیر تو میں تمھیں دیکھتی ہوں ۔۔

سرہانے پڑے لیمپ کی روشنی کے دائرے میں تھہارے چہرے کا جو حصہ سب سے نمایاں ہے ۔۔وہ تمھاری ناک ہے۔ سبک سانسوں کی دلربا آمدورفت سے ہلکے ہلکے تھرتھراتے ہوئے نتھنے ۔۔اف!! کس قدر ستواں اور دلکش ہے۔۔مغرور۔۔بالکل تمھارے جیسا ۔۔

اب میں تمھارے ان لبوں کو آنکھوں سے پی رہی ہوں جو کچھ دیر قبل میرے بدن کو کسی معجزاتی چمن میں بدل رہے تھے۔۔ایک دوسرے میں باہم پیوست۔۔تراشیدہ لب ۔۔جو تمھارے بے تحاشا سگریٹ نوشی کے باعث گہرے عنابی سے ہو گئے ہیں ۔سگریٹ! !

ایک بات بتاؤں؟ ؟ مجھے تمھارے سگریٹوں سے بہت حسد محسوس ہوتا ہے ۔دن میں، رات میں ۔۔آفس میں کام کرتے ہوئے۔۔کسی کلائنٹ کے ساتھ بحث کرتے ہوئے ۔کام کے تناؤ میں ۔۔یہ ہر پل تمھارے لبوں کے قرب میں ہوتی ہیں اور بنا جھجھکے ۔ تم انہیں اپنے قرب سے نوازتے ہو۔۔سب کے سامنے ۔۔کاش میں بھی ان سگریٹوں میں سے کوئی ایک ہوتی تو تم مجھے آخری کش تک اپنے اندر تو اتار لیتے۔۔تمھیں تو خبر بھی نہیں ۔۔کئی بار میں نے ان بچے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑوں کو اپنی زبان پہ رکھ کر تمھارے لبوں کی حدت محسوس کی ہے۔۔

ارے۔۔!!شاید بے خیالی میں میرا ہاتھ تم سے چھو گیا ہے جبھی تو تم کسمسا رہے ہو ۔ ذرا سی کروٹ لے کر اب تم پھر سے پرسکون ہو گئے ۔۔

اچھا!! ایک بات تو بتاؤ ۔۔تم میری قربت میں آ کر بھی مکمل میرے کیوں نہیں ہوتے، ؟ ایسا کیوں لگتا ہے میں پانی  ہوں اور تم تیل کی مانند میری سطح پر رہتے ہو۔۔مجھے اس ہم آہنگی کی تشنگی سمندر کنارے بھی پیاسا رکھتی ہے ۔میرے جزو تمھارے کل کا حصہ کیوں نہیں بنتے۔۔؟؟ اتنے دانش مند ہو ۔یہ کیوں نہیں جان پائے کہ میرے جسم کی پرت کے اندر جو من ہے وہ بھی تم سے وصل چاہتا ہے۔یا شاید تم نے کبھی جاننا چاہا ہی نہیں ۔؟

یہ تو میں تھی جو تمھارے قدموں میں بیٹھی ملن جاپ جپتی تھی۔۔اور سارے نرت آزما کر تھک ہار کر کہتی تھی۔ گھنڈ کھول دیدار کراؤ ۔۔میں آیا مکھ ویکھن ۔ ۔۔تو مکھ دیکھنے کی چاہ تو میری تھی ۔۔تپسیا بھی میری اور نراشا بھی تو میں ہی بھوگ رہی ہوں ۔۔یہ کیا ہے کہ میں تو اپنے اختیار میں نہیں رہی مگر تم ہنوز با اختیار ہو۔۔ اتنے با اختیار ہو کہ میرے عورت پن کی تکمیل کی خواہش تمھاری مٹھیوں میں دبی کراہتی اور سسکتی ہے۔ایک گول مٹول سا، ننھا سا بچہ ہمہ وقت میرے پیٹ میں مچلتا رہتا ہے۔وہ میرے سینے پہ سر رکھ کر سونا چاہتا ہے۔۔۔اسے کے ہونٹوں کی گرمائش اور لمس میں اپنے سینے پہ محسوس کرتی ہوں اور اپنی بے بسی پر اپنے پاؤں رکھ کر دانستہ اس خیال کو پٹخنیاں دینےلگتی ہوں ۔۔۔۔

لیمپ کی روشنی اب تمھارے کشادہ سینے پر پھسلتی ہوئی تمھارے پیروں پر پڑ رہی ہے۔ ۔

آہ! تم کس قدر نفاست پسند ہو!!

میں نے تمھارے شفاف پیروں پہ کبھی دھول کا ایک ذرہ تک نہیں دیکھا ۔یہاں تو خیر دھول مٹی کا تصور ہی نہیں مگر ہزاروں میل دور ۔۔۔پنجاب کے اس گاؤں میں بھی تو تمھارے  پیر یونہی شفاف اور نکھرے رہتے تھے جہاں میرا پورا اور تمھارا آدھا بچپن گزرا ہے۔

ایک راز کی بات بتاؤں؟ ؟ مجھے سب سے پہلے تمھارے پیروں سے عشق ہوا تھا۔اس بھید بھری شام میں جب تم ہوسٹل سے گھر آ کر سو رہے تھے اور چچی چپکے چپکے تمھارے پیروں کے تلوؤں  پر گھلی ہوئی مہندی کا لیپ لگا رہی تھیں تا کہ شہر لاہور کی وہ ساری دوپہریں جو تمھارے پیروں نے لا کالج کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے جذب کی تھیں ان کی گرمی یہ کچی کنالی میں گھلی مہندی چوس لے۔۔میں کنویں کی منڈیر پہ بیٹھی تمھیں  دیکھتی تھی اور جی ہی جی میں یہ سوچ کر ہنس رہی تھی کہ جب تم نیند سے بیدار ہو گے تو اپنے پاؤں کی یہ درگت دیکھ کر کتنا جھنجھلاؤ  گے اور دنوں سب سے الجھتے پھرو گے۔اور پھر آسمان پہ گہری ہوتی لالی نے مجھے اکسایا اور۔۔۔پہلی بیڑی میں نے نادانستگی میں اپنے ہاتھوں میں ڈال لی تھی ۔۔

ہاہ! میں نے تمھارے تلوؤں کی مہندی سے اپنے سیدھے ہاتھ کی دو انگلیاں رنگ لی تھیں ۔۔۔میری پہلی چوری۔۔اور ۔۔جانے کیوں؟؟ مجھے لگا کہ یہ ازل سیندور سہاگن ہے جو میری مانگ میں ان دیکھا سا چمکتا ہے اور دنوں میں خود سے آنکھیں چرائے پھرتی رہی۔۔
ارے!! آگ تو تقریبا بجھ گئی۔۔؟؟؟؟ خیر تم پہ پڑا یہ ڈبل پلائی کمبل تمھاری  نیند خراب نہیں ہونے دے گا۔میرا دل کافی پینے کو چاہ رہا ہے مگر۔۔۔میں تمھارے چہرے سے نظریں ہٹانے کا حوصلہ کہاں سے لاؤں؟ تمھیں  یاد ہے؟؟ ہماری حویلی کے پچھواڑے، جہاں پرانے سامان کے لیے  دو  کوٹھڑیاں بنی ہوتی تھیں ۔۔وہاں جنوبی گوشے میں ایک بوڑھا، جٹا دھاری برگد ہوا کرتا تھا۔۔اماں اور چچی ہمیں کبھی وہاں جانے نہیں دیتی تھیں ان کا خیال تھا کہ یہ برگد آسیب زدہ ہے۔جبھی تو اس قدر وسیع و عریض ہونے کے باوجود اس کی موٹی موٹی ٹہنیاں اور الجھے ہوئی جٹاوں میں کوئی پکھیرو اپنا آلنا بنانے کی جرات نہیں کرتا۔اور کبھی بھولا بھٹکا پنچھی آن ٹھہرتا تو اگلی ہی صبح اس کا اکڑا ہوا مردہ بدن کچی مٹی پہ بے توقیر سا پڑا ہوتا تھا۔تب میں بھی اسے آسیب کا سایہ ہی سمجھتی تھی۔۔کیونکہ تب تک مجھے محبت نامی پچھل پائی کے وجود سے آگاہی نہیں تھی۔۔اور تم بھی تو ۔وہ جٹا دھاری برگد ہی ہو۔جو مجھے خود پہ بسیرے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔

آسمان پہ سفر کرتا چاند اب میری کھڑکی میں آن ٹھہرا ہے اور تمھیں چپ چاپ یوں دیکھتا ہے جیسے تم چاند کے دیوتا ہو۔۔۔ہاں! ! دیوتا سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔۔بس داسی کا درد جدا جدا ہوتا ہے۔۔۔یہ تمھاری آنکھیں ۔۔جو چاند کے برادے سے بنی ہیں ۔۔اور بے حس بھی ویسی ہی ہیں شاید چاند کی کسی داسی نے تمھیں بھینٹ کی تھیں ۔۔۔اور میں؟ ؟ میرے پاس تو اب تمہارے چرنوں میں بھینٹ دینے کو کچھ بھی نہیں رہا۔۔۔

وہ بیر بھی نہیں ۔جو کرشن کو چڑھاوا چڑھانے سے قبل داسی تھوڑے تھوڑے چکھتی تھی ۔تو جب ایک دوسری حاسد داسی نے دیکھا تو اس نے طعنہ زن ہوتے ہوئے کہا” چھی چھی!!! بھگوان کو جھوٹے بیر بھینٹ کیے  تو نے” تو اس نے کیا کہا؟؟اس نے کہا نہیں یہ جھوٹے نہیں ہیں، یہ تو کرشن دوارا میرا پریم ہے کہ میں ہر بیر اس لیے  چکھا کہ میرے پرمیشور کو کوئی کھٹا بیر نہ کھانا پڑے ۔” تو میرے پاس وہ بیر بھی نہیں ۔۔وہ تو شاید اسی حویلی کی کسی موری میں گر گئے۔

اف!! آج کل مجھے بات بات پہ ماضی کیوں یاد آنے لگتا ہے؟ ۔۔۔
شاید ناسٹلجیا نامی بیماری مجھے روز بروز جکڑتی چلی جا رہی ہے ۔۔

آہ!! میری آنکھوں میں ایک آنسو جانے کس درد کا چلا آیا ہے کہ اپنی دانست میں تو میں تمام دکھ رو چکی تھی۔۔ مگر!! میری گردن اس لگژری بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے لگائے اکڑ سی گئی ہے اور مجھے وہ چنیوٹی رانگلے پائیوں والے پلنگ بہت شدت سے یاد آ رہے ہیں جن پہ سردیوں میں دیسی کپاس کے گدے بچھے ہوتے تھے اور گرمیوں میں نواڑی پلنگوں پر کوری کپاس کی سفید چادریں اماں اور چچی بچھایا کرتی تھیں اور میں رات کو ان پہ سفید جالی کی مچھر دانیاں نازک بانس کی ڈنڈیوں کے سہارے تان دیا کرتی تھی۔۔کتنی عجیب بات ہے ناں؟ تم تو تب بھی اندر کمرے میں ہی سویا کرتے تھے۔۔تمھیں کھلا آسمان کیوں پسند نہیں؟

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں، میرا دل تو میرا کبھی نہیں تھا مگر! تم تو تب بھی اختیار رکھتے تھے۔۔انکار کر سکتے تھے۔۔تم نے کیوں مجھے چپ چاپ اپنا لیا؟؟ شاید چچی کے خدشات کو غلط ثابت کرنے کے لیے۔؟ ۔۔جنہیں لگتا تھا کہ اگر انہوں نے تمھیں یوں اکیلے ولایت جانے دیا تو تم وہیں کسی گوری میم کی زلفوں کے اسیر ہو کر انہیں اور اپنی مٹی کو بھلا بیٹھو گے۔جبھی تو بیسویں سال کا آغاز میں نے تمھارے بولوں میں بندھ کر کیا۔

آہ کیسا دن تھا وہ ۔۔گپ چپ۔۔۔بھید بھرا۔۔ہوا بھی دم سادھے ہوئے تھی۔اور اس دن کی شام جب آئی تو اتنا حبس تھا کہ میرے لال دوپٹے پر لگے چاندی کے گھوگھرو مانو پگھلنے لگے تھے۔ لال جوڑا تو چچی کے ہاتھ جوڑنے پر تم نے پہننے دے دیا مگر میرے ہاتھ۔!!وہ سہاگن کی نشانی سے عاری تھے۔۔۔ہاں! ! تم نے سختی سے مجھے مہندی لگانے سے منع کر دیا تھا۔توبہ توبہ !! بد شگونی کا سایہ تو اسی دن میرے ساتھ ہو گیا تھا ۔بھلا دلہن کی ہتھیلیاں ۔۔اور کوری؟؟؟ چچی کے لاکھ واویلوں پر بھی تم اپنی ضد سے ایک انچ نہ پیچھے ہٹے اور میں دل مسوس کر دھلے، کورے ہاتھوں سے ہی تمھاری چھپر کھٹ پہ آن بیٹھی ۔
اور اس رات مجھ پہ زندگی اپنی پوری شدتوں سے آشکار ہوئی تھی۔۔عجیب سی رات تھی وہ جس کی صبح جب ہوئی تھی تو میں اس قدر تھکی ہوئی تھی جیسے ایکڑوں پہ پھیلے کھیتوں میں لگی چاول کی فصل آج ہی آج کاٹی ہو۔۔جیسے آج رات ہی ارمانوں کی کھڈی پہ میں نے اپنا کفن بنا ہو۔۔ہائے!! میں بھی تو راجپوتانی تھی۔۔۔مگر پریم رس کے دھوکے میں جولاہی ہو گئی۔۔میرا حلق میں ایسی جلن ہو رہی تھی جیسے خراشوں پہ سرکہ چھڑکا ہو اور میرے دانتوں میں ریت کی سی کرکراہٹ تھی۔۔

اماں نے جب گلے لگا کر ” سدا سہاگن رہو” کی دعا دی تو جانے کیوں میرا دل چاہا میں بیچ آنگن کے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر روؤں ۔جیسے بچپن میں اپنی کیریاں چھن جانے پہ رویا کرتی تھی۔۔اب بھی تو کیریاں چھن گئی تھیں اور جھولی کے بیر موری میں جا پڑے تھے۔۔
چاند کا سفر اختتام کی جانب گامزن ہے اور مجھے بھی نیند کے جھونکے ہلکے ہلکے جھولے دینے لگے ہیں ۔۔لیکن میں کیسے سو سکتی ہوں؟ ؟ سو گئی تو صبح ہو جائے گی اور سورج طلوع ہوتے ہی تمہارا چہرہ غروب ہو جائے گا۔۔تو کیا کیا جائے؟؟ ہاں ۔۔ایک بار پھر سے ماضی کی کھلی قبر میں جھانک کر زندگی کی سڑتی کیڑے پڑی لاش کو دیکھ لیا جائے۔۔

تمھارے ساتھ اس ٹھنڈے بے مہر ملک کی جانب اڑان بھرتے ہوئے میرا دل چاہا تھا میں ڈیپارچر لاؤنج سے کسی طرح نکل بھاگوں اور داتا دربار کی ٹھنڈی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو جاؤں مگر افسوس!! میں یہ بھی نہ کر پائی۔میرا ہاتھ تمھارے ہاتھ کی گرفت میں تھا اور تمہارے دوسرے ہاتھ میں ہمارے پاسپورٹ اور ٹکٹ تھے۔۔۔
اپنا پنجاب، اپنا لاہور چھوڑ کر جاتے ہوئے میرے اندر کوئی کونج کرلاتی تھی۔۔وہ کہتی تھی اب واپسی نہیں ۔۔اب واپسی نہیں ۔۔!!
میں کبھی کبھی سوچتی ہوں ۔۔کہ انسان کس قدر ڈھونگ رچاتا ہے۔۔ساری عمر اپنے بنے ہوئے گورکھ دھندوں میں گھر کر وہ ان محبتوں،رشتوں اور وابستگییوں کو ایسے فراموش کر دیتا ہے جیسے آنول کٹتے ہی بچے کے تن کی ڈور ماں سے جدا ہو جاتی ہے اور جن کے متعلق اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ان سے جدا ہوتے ہی مر جائے گا۔ہونہہ!! ڈھونگی! !۔۔اف!! بچہ!! آہ۔۔۔
میں بھی تو کس قدر ڈھونگ رچاتی ہوں ناں؟ ؟ خوش ہونے کے۔۔۔ایک کامیاب، مایہ ناز بیرسٹر کی رول ماڈل بیوی ہونے کے۔۔ تمھارے دوستوں، کاروباری شراکت داروں کے لیے پارٹیز ارینج کرتے ہوئے بھی مجھ پر وہ عورت غالب نہیں آتی جسے تم لاہور سے اپنے ساتھ لائے تھے ۔۔۔

ویسٹرن کٹ پہنتے ہوئے بھی مجھے وہ چوڑی پاجامے، ساڑھیاں اور مکیش کے کام سے جھلملاتے ہوئے کپڑے یاد نہیں آتے جو ہماری ماؤں نے گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں انارکلی اور شاہ عالمی کی خاک چھان کر خریدے تھے اور جنہیں جوں کا توں بکسوں میں بند کر کے میں تمہارے ساتھ چلی آئی۔۔کتنی خواہش تھی ناں انہیں ایک بار پہننے کی مگر! تمھارے کالے کوٹ نے تمہیں رنگوں،چمک اور ریشمی سرسراہٹوں سے بیزار کر دیا تھا ۔

اف!! یہ میری ذہنی رو!! نجانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔۔ہاں تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ ان ویسٹرن پارٹیز میں ایک ہم آہنگ جوڑے کی طرح ایک سے رنگوں کے لباس زیب تن کیے اور مہمانوں کو اپنے جاپانی خانساماں کے بنائے کھانوں سے انٹرٹین کرتے ہوئے جانے کیوں میرے نتھنے لہسن کے تازہ بگھار کی خوشبو کی چاہ میں پھڑکنے لگتے ہیں جو اماں مونگ مسور کی دال پہ ایک ٹھیکری پہ انگارہ رکھ کر لگایا کرتی تھیں ۔۔”چھن” کی آواز کے ساتھ ایک لطیف مہک حویلی کے کونے کونے میں مست الست کنیاوں کی طرح بھاگتی پھرتی تھی۔۔مگر!! یہاں بگھار لگانے کا سوچو بھی تو پڑوسی چلانے لگتے ہیں کہ یہ کیا اسمیل پھیلا رہے ہو تم لوگ۔!! خیر۔۔یہ سب تو ٹھیک ہی ہے مگر آج کل میں جس بات سے بے حد خوفزدہ ہوں وہ کچھ الگ ہے۔۔

میرے مغربی لبادے والی عورت کے منہ پہ وہ گاؤں کی عورت ہاتھ رکھ دینا چاہتی ہے جب میں تمھارے کسی ساتھی کے بچے کو گالوں سے گال ملا کر “ہاؤ کیوٹ! !! ڈارلنگ بے بی۔ اور لٹل اینجل ۔۔اپنے لپ سٹک سے رنگے ہونٹ لٹکا کر کہہ کر وش کرتی ہوں تو تب وہ دیہاتن ۔۔میرا منہ نوچ لینا چاہتی ہے ” شالا جیوندا رہیونیں ۔۔بھاگ لگے رہن ۔۔” میری زبان میں کہرام مچانے لگتا ہے اور انہیں حلق کی گہرائیوں میں دھکیلتے ہوئے میری زبان پتھرا جاتی ہے۔۔
میں اس زور آور دیہاتن سے زیادہ دن جنگ نہیں کر سکوں گی اور میں اس پل سے خوفزدہ ہوں جب وہ مجھ پہ حاوی ہو جائے گی۔۔کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو تم مجھے اس شو پیس کی نوکری سے بھی فارغ کر دو گے۔۔پھر بھلا میں کہاں اپنے ٹکڑے دفن کرتی پھروں گی؟؟

کل جب جینی نے اپنے چھ ماہ کے ننھے بچے کو میری گود سے لیتے ہوئے کھلکھلا کر میری سمارٹنیس اور فگر کی تعریف کرتے ہوئے مجھے “ہاٹ ایسٹرن بیوٹی” کا خطاب دیا تھا تو میرا دل چاہا تھا کہ میں اسے کہوں کہ جینی تم مغرب کی عورت ہو۔۔تم نہیں سمجھ سکتیں کہ مشرقی عورت کے لیے اپنا بدن صرف تب مقدس اور دلکش ہوتا ہے جب وہ ایک بچے کو اپنے پیٹ میں سنبھالے، سوجن زدہ ہاتھ پیروں اور چھائیوں بھرے چہرے کے ساتھ خود کو آئینے میں دیکھتی ہے۔۔اسے کسا ہوا کمر سے لگا پیٹ نہیں بھاتا ۔ ۔اسے ابھرا ہوا، زچگی کی لکیروں سے سجا ہوا پیٹ بے حد آسودہ کرتا ہے مگر!!
تم نے میرے پیٹ کا محل ہمیشہ خالی ویران ڈھنڈار ہی رکھا۔۔ واہ رے بے بسی! ! میں تخلیق کے لیے  بھی تمھاری مرضی کی محتاج ہوں ۔۔

ارے!! دیکھو تو ذرا! ! صبح کے ساڑھے چھ ہو رہے ہیں اور ابھی تھوڑی ہی دیر میں تم جاگ جاؤ گے۔۔میرا دل چاہ رہا ہے میں الارم چھپا دوں ۔۔گھڑی کی ٹک ٹک کا گلا گھونٹ دوں کہ تمھاریے  آنکھ کھولتے ہی تم مجھ سے اوجھل ہو جاؤ گے۔۔
تمھیں فرصت سے دیکھنے کی عیاشی بھی مجھ سے پورے بارہ گھنٹے کے لیے چھن جائے گی۔۔مگر!!
یہ گھڑیاں توڑ بھی دوں تب بھی تمھارا معمول تمھیں پورے سات بجے کسی روبوٹ کی طرح اٹھا دے گا۔۔
تو یہ جاتے ہوئے چند پل میں تمھیں سکون سے دیکھ رہی ہوں ۔۔سورج کی پہلی کرن ہمارے کمرے کی کھڑکی سے جھانک رہی ہے ۔۔تم کسمسا رہے ہو اور مجھے بھی تمہاری پسندیدہ سیاہ کافی کا کپ تمھارے باتھ روم سے نکلنے سے پہلے تمھاری سائیڈ  ٹیبل پر رکھنا ہے۔تمھارا کوٹ، گھڑی اور کف لنکس الماری سے نکال کر لانڈری میں لٹکانے ہیں ۔اور جب تم اپنے پسندیدہ سکریمبلڈ ایگ کے ساتھ فرنچ براؤن بریڈ کا ناشتہ کر رہے ہو گے تو مجھے اپنی یوگا کلاس کے لیے نکلنا ہے۔جہاں انسٹرکٹر آج پھر میری نیند بھری آنکھیں دیکھ کر مجھے جھاڑ پلائے گی اور خوبصورت جوان جلد کے لیے آٹھ گھنٹے کی نیند کی اہمیت پر لیکچر دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب میں اسے کیا بتاؤں کہ بارہ میں سے آٹھ گھنٹے نفی کر دوں تو شاید پاگل ہو جاؤں اور خود سے باتیں کرنے کے لیے بھی تو وقت چاہیے ناں ۔۔اب تو یہ خود کلامی ہی سکون دیتی ہے اور اب میں دھیرے دھیرے اس پہ قانع ہوتی جا رہی ہوں کیونکہ میرے دل نے جان لیا ہے کہ یہ خود کلامی، مکالمے میں کبھی بھی نہیں ڈھلے گی۔۔
دن نکل آیا ہے۔۔۔۔۔تم غروب ہو رہے ہو۔۔۔!!!!

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”ادھوری عورت کی کتھا ۔۔مریم مجید ڈار

  1. ہمیشہ کی طرح زبردست ۔۔۔۔ کہیں کہیں کہانی سے زیادہ حقیقت کا گمان اور ادھوری عورت کے لاحاصل جذبات۔۔۔۔ تشنگیاں اور وہ مکمل ہونے کے ادھورے سپنے جو وہ ہمیشہ دیکھتی ہے۔ ان سب کو بہت اچھے طریقے سے بیان کیا ہے۔

  2. بہت ہی عمدہ تحریر۔۔۔ پڑھتے ہوئے کہیں کھو سی گئی میں خدا پاک اور ترقیاں عطا کرے امین ??

Leave a Reply to قرۃالعین حیدر Cancel reply