• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا عمران خان قصہ ء ماضی بن جائیں گے؟-ڈاکٹر ندیم عباس

کیا عمران خان قصہ ء ماضی بن جائیں گے؟-ڈاکٹر ندیم عباس

وقت ایک سا نہیں رہتا اور حکمران تخت سے اتارے جاتے ہیں، جو خود سری دکھاتے ہیں، انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ لوگ انہیں بھول جاتے ہیں۔سیاست میں نئے کھلاڑی آجاتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے، عمران خان صاحب سے ٹکٹ لینے والوں کی لائن لگی ہوئی تھی اور لوگ ان سے ملنے کی ہر قیمت دینے کے لیے تیار تھے۔ ان کے نام کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ میں ان حالات کی طرف نہیں جاتا کہ عمران خان کو کس طرح میڈیا پر لانچ کیا گیا اور کس طرح لوگوں کو ڈرا دھمکا کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرائی گئی، عمران خان کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا اور جہانگیر ترین کا جہاز وافر مقدار میں لوگوں کا ضمیر جگا کر لاہور اور پھر اسلام آباد لینڈ کرچکا ہوتا تھا۔ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کی جو سپورٹ عمران خان صاحب کو میسر رہی، وہ پاکستانی تاریخ میں بشمول لیاقت علی خان کسی وزیراعظم کو میسر نہیں رہی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بجٹ پاس کرانے کے لیے بندے پورے کرنا بھی عمران خان کی یا پی ٹی آئی کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ یہ سہولت بھی انہیں باہر سے میسر تھی۔

جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انہوں نے امریکی مخالفت کا پتہ کھیلا، عمران خان کی کیمسٹری جاننے والا ایک عام فرد بھی تھوڑے سے غور و فکر سے یہ جان سکتا ہے کہ عمران خان اور مغرب بالخصوص امریکہ کی مخالفت بعید ہے۔خیر ہم نے بھی سنا، سوچا اور فیصلہ کیا کہ اگر یہ استعمار مخالف ہے تو حقیقت جلد بات سامنے آجائے گی اور اب زلمے خلیل زاد سے لے کر امریکی سینٹرز کی بے تابیاں بتا رہی ہیں کہ مسئلہ کوئی اور ہے۔ خیر میں عرض کر رہا تھا کہ زمان پارک عمران کے ٹائیگرز کا مرکز بن گیا اور عمران خان اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے کا پرچار کرنے لگے۔ جب امریکہ کے لیے “ہم کوئی غلام ہیں” کا نعرہ لگایا تو وہ بھی بک گیا اور جب امریکہ سے دوبارہ لو لگا لی تو ذمہ دار آرمی چیف ہوگیا۔ پہلے باجوہ ہر چیز کا ذمہ دار تھا اور اب ٹیون تبدیل کرکے ہر چیز کا ذمہ دار نئی آرمی چیف کو قرار دے دیا۔ خیر ہر بار کی طرح ان کے ماننے والوں نے امریکہ کو چھوڑ کر آرمی کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا اور سوشل میڈیا پر تو باقاعدہ انقلاب آچکا تھا۔

ہم بھی سوچ رہے تھے کہ یہ دنیا کا واحد انقلاب ہوگا، جو اشرافیہ کا ایک طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف لائے گا۔ نو مئی سے پہلے پی ٹی آئی والوں کو سوچنے سمجھنے کی دعوت دینے کا مطلب خود کو گالیوں کے لیے پیش کرنا تھا۔ جو بھی عمران خان کے خلاف تھا، وہ غدار سے کم تو کچھ نہیں تھا، سب چور ڈاکو تھے۔ عمران خان صاحب کو گرفتار کیا گیا اور پھر وہ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پاکستان آرمی نے بہت ہی تحمل کا مظاہرہ کیا، ورنہ بہت خون خرابہ ہونا تھا، اس پر آرمی کی قیادت اور عام جوان خراج تحسین کا مستحق ہے۔ ہم نے اسی وقت دوستوں سے کہا کہ اب پی ٹی آئی کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، ریاست کسی صورت میں یہ برداشت نہیں کرے گی۔ رہی سہی کسر انڈین میڈیا نے نکال دی اور رات تک عام پاکستانیوں کی نظر میں پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت کے طور پر آچکی تھی، جو ریاستی اداروں پر حملہ آور ہے اور وہ کچھ کر رہی ہے، جو ٹی ٹی پی اور انڈیا کی خواہش ہے، مگر وہ کر نہیں سکے۔

یہ پی ٹی آئی کی غلطی نہیں بلنڈر تھا، ہم لوگ انتظار میں تھے کہ عمران خان صاحب بڑی حکمت عملی سے یوٹرن لے لیتے ہیں، اب بھی یوٹرن لے کر خود کو اس سے الگ کریں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ دس مئی کو بھی توڑ پھوڑ جاری رہی۔ اداروں نے بڑی حکمت عملی سے خون خرابہ نہیں ہونے دیا بلکہ یوں لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو مکمل طور پر ٹریپ کیا گیا اور بدقسمتی سے وہ ٹریب ہوگئی۔ وہ زمان پارک جہاں ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا، ملک بھر سے ان کے دیوانے وہاں موجود رہتے تھے اور عمران خان صاحب کے لیے جان دینے کے لیے تیار تھے، وہاں خوف کے سائے منڈلانے لگے، لوگ خوف و ہراس میں اپنا قیمتی سامان تک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ صحافیوں کے بقول وہ زمان پارک جہاں میلے کا گمان ہوتا تھا، اب وہاں وحشت کا عالم ہے اور چند معذورں اور ان غریب لوگوں کے علاوہ وہاں کوئی نہیں، جن کے پاس گھر جانے کے پیسے نہیں ہیں اور انہیں بھی پیسے دے کر روانہ کر دیا گیا۔ اب پولیس ہے اور گھر میں عمران خان ہیں، اب وہ بیانات دے رہے ہیں کہ میں انتظار کر رہا ہوں، مجھ سے کوئی مذاکرات نہیں کر رہا۔

ہمارے عہد کے عظیم شاعر افتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے:
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
قرآن نے تو کیا ہی خوبصورت کہا ہے: وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِۚ “اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں۔” خان صاحب کے فالورز بھی کہتے تھے اور حقیقت بھی ہے کہ خان صاحب سیاستدان نہیں، اگر سیاستدان ہوتے تو بند گلی کا راستہ اختیار نہ کرتے۔ سیاستدان ہمیشہ اپنے لیے نکلنے کا راستہ رکھتا ہے، جب وہ اپنی حکومت ختم کرانے کے بعد بھی باجوہ کے کہنے پر پنجاب اور کے پی کی اسمبلی توڑ رہے تھے تو وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ بیچ رہے تھے اور عملی طور پر یہ کر رہے تھے۔ پتہ نہیں خان صاحب کو ہر بار دوسرے استعمال کیوں کر لیتے ہیں؟ فرمایا کرتے تھے، چوری نہیں کی تو تلاشی دیں، اب ان کی تلاشی کی بات ہوئی ہے تو ریڈ لائن کا بیانیہ کھڑا کر دیا تھا۔

پی پی اور نون لیگ کو یہ داد تو بنتی ہے کہ ان کی قیادت خود گرفتاریاں دیتی رہی، مگر انہوں نے کبھی بھی اپنے کارکن پر یہ سختی نہیں آنے دی، خان صاحب نے خود کو بچانے کے لیے کارکنوں سے قربانی مانگی۔ اب تو ان کی اپنی پارٹی میں لوگ بڑے پیمانے پر یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ خان صاحب کو اپنے اور اپنی زوجہ کے علاوہ کسی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اب خود سب صحافیوں کو بلا بلا کر بتا رہے ہیں کہ مجھ ہٹا دیں گے یا جیل ڈال دیں گے۔ خان صاحب ہتھکڑیاں سیاستدانوں کا زیور ہوتی ہیں اور جیل سسرال، ان سے گھبرانا نہیں ہوتا، ان کا دلیری سے سامنا کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان ماضی کا قصہ بن جائیں گے؟ پچھلے چند دنوں میں بہت سے لوگوں نے عمران خان کو چھوڑا ہے اور بہت سے اڑان بھر رہے ہیں۔ اگر میں یوں کہہ دوں کہ عمران خان صاحب جہانگیر ترین کے جہاز پر جو سواریاں لائی گئی تھیں، اب وہ واپس جا رہی ہیں تو یہی حقیقت ہوگی۔

ریاست سے ٹکرا کر آپ نے خود اپنی طاقت کو تباہ کر لیا ہے۔ بیچارے غریب کارکن جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور ان کے والدین قیدیوں کی وینوں سے لگ لگ کر رو رہے ہیں۔ کچھ نے جذبات میں وہ کام کیے کہ اب ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ جیلوں میں گزرے گا۔ خان صاحب کو اداراک ہے نہیں تو ہو جائے گا، پاکستان میں اقتدار کی دو شرائط ہیں، ایک اسٹبلشمنٹ کی منظوری اور دوسری عوامی طاقت، اب آپ آدھی سے مکمل محروم ہوچکے ہیں اور باقی مقبولیت بھی تین ماہ میں اسی جگہ لے آئیں گے، جہاں آپ کو صرف دکھاوے کی اپوزیشن ہی ملے گی۔ کل فیاض الحسین چوہان نے بڑی اہم بات کی کہ اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور دیگر کے نام لے کر کہا کہ میں ان سے ملوں گا اور ہم محنت کو ضائع نہیں ہونے دیں گے بلکہ نئے پلیٹ فارم سے سامنے آئیں گے۔ اگر یہ نئی پی ٹی آئی بناتے ہیں تو یقیناً پی ٹی آئی میں بڑا ڈنٹ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خان صاحب یہ پی پی اور نون لیگ پاگل نہیں ہیں، شہباز شریف ایسے ہی ائیرپورٹ سے دور نہیں رہا تھا، اس کی وجہ آپ کو معلوم ہوگئی ہوگی۔ یہ ان دو جماعتوں نے دہائیوں کی شعوری جدوجہد سے سیکھا ہے کہ ہم مقابل آکر انقلاب نہیں لا سکتے، ہمیں سیاست اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہوگا اور اگر وقت ملے تو اٹھارویں ترمیم پڑھ لیں، یہ اختیارات کے مراکز کو تبدیل کرنے کا انقلابی ڈاکومنٹ ہے، جس نے اختیارات پر ایک بڑا ڈنٹ ڈالا ہے۔ آپ بھی سیاستدان بنیں اور سیاستدانوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں، یہیں سے آگے راستے نکلیں گے، دوسروں کو مائنس کرتے کرتے کہیں خود سیاست میں قصہ ماضی نہ بن جائیں

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply