عمران خان اور اس کی تنہائی/عامر کاکازئی

آج سے ایک سال بعد بنی گالہ میں “مُرشد جی” کی یاد میں شیرو کے ساتھ بات کرتے ہوۓ

یہ کہاں آ گئے  ہم، یونہی ساتھ   ساتھ چلتے
میں اور میری تنہائی، اکثر یہ باتیں کرتے ہیں
تم ہوتی تو کیسا ہوتا ، تم یہ کہتی تم وہ کہتی
تم اس بات پر حیراں ہوتی، تم اس بات پر کتنا ہنستی،
تم ہوتی تو کیسا ہوتا ، تم یہ کہتی تم وہ کہتی
میں اور میری تنہائی، اکثر یہ باتیں کرتے ہیں
یہ کہاں آ گئے  ہم، یونہی ساتھ ساتھ   چلتے!

افسوس ضرور ہے کہ سیاست میں ایک تیسری قوت مکمل طور پر ختم ہونے جا رہی ہے۔ جیسے ایم کیو ایم ختم ہوئی، ٹھیک اسی طرح تحریک انصاف کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہونے جا رہے ہیں۔ جیسے ایم کیو ایم کی بربادی میں الطاف حسین کا اپنا ہاتھ تھا، ٹھیک اُسی طرح تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنے میں عمران خان کی ضد، ہڈ حرامی اور تکبر نے مدد کی۔ عمران خان کے گھمنڈ نے اسے آج اِس حال میں  پہنچایا ہے،کہ سارے ساتھی ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو آپ نہیں توڑ سکتے جیسے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اے این پی کو توڑنے پر تجربات ہوئے، مگر بُری طرح سے ناکام ہو گئے ۔ مگر یہ تجربہ ایم کیو ایم پر آسانی سے کامیاب ہو گیا۔ کیوں؟ اس کی بڑی وجہ تھی کہ الطاف حسین کے پیچھے کون کھڑا ہوتا کہ پارٹی سنبھالتا؟ نہ بیٹا، نہ  بیٹی، نہ  بیوی نہ  بھائی ، بہن۔ اسی طرح عمران خان کے پیچھے اس کا کون اپنا ہے، جو کہ اس کے جیل جانے کے بعد پولیٹیکلی ایکٹیو ہو کر کھڑا ہو گا؟ ۔اب کیا “مرشد جی” سڑکوں پر نکلیں گی؟ سوچنا بھی نہ۔ ۔

انصافی  موروثی سیاست کو  لاکھ بُرا بھلا کہیں مگر موروثی سیاست، ایشیائی ممالک کی مجبوری بھی  ہے اور ایک حقیقت بھی، جس سے  آپ نظر نہیں چُرا سکتے۔

عمران خان کا ایک بیان ہے کہ اس کے ساتھ %99 فیصد پاکستانی ہیں۔ مگر 9 مئی کو صرف پینتالیس ہزار نکلے، سوال یہ ہے کہ باقی کے چوبیس کروڑ کہاں تھے؟

ہمارے انصافی دوست یہ آرگیومنٹ دیتے ہیں کہ عمران خان نے ابھی حال ہی میں 9  سیٹیس جیت لی تھیں  اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے ووٹرز کا واحد میگنٹ عمران خان ہے، مگر یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے جسے انصافی بھائی بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمنٹیرین ہے، نا کہ صدارتی۔ ہمارے ملک میں تقریباً 342 نیشنل اسمبلی کی سیٹیس ہیں اور 728 چاروں اسمبلیوں کی سیٹیس ہیں۔ کیا عمران خان ایک ہزار سے زیادہ سیٹوں  پر کھڑا ہو کر جیت سکتا ہے؟ اگر ہاں تو اس جیت سے فائدہ کیا ہو گا؟ کیونکہ اس نے صرف ایک سیٹ ہی رکھنی ہو گی۔ پارلیمنٹیرین سسٹم میں کسی بھی پارٹی کو جیتنے کے لیے پہلے تو مضبوط امیدوار چاہیے، جسے وننگ ہارس کہا جاتا ہے، دوسرا پیسہ چاہیے۔ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کو جہاں ایجنسیوں کی مکمل سپورٹ تھی اُدھر کئی اے ٹی ایمز بھی گھیر گھیر کر اور جہاز بھر بھر کر ممبرز لا رہے تھے۔ 2018 کے الیکشن میں پاکستان کی سب سے بدترین دھاندلی ہوئی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا عمران خان کے پاس یہ چار اہم فیکٹرز موجود ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔

ایک خاص بات کہ اب وہ کھمبوں کو ووٹ دینے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ عمران خان نے کھمبا بھی کھڑا کر دیا تو جیتے گا۔ یہ ایک خام خیالی ہے۔ اب لوکل سیاست کے ڈائنمکس کچھ اور ہیں۔

مشاہد اللہ خان صاحب نے ایک بار اسمبلی میں کہا تھا کہ “جب تم پر بُرا وقت آے گا تو تم رونے لگ جاؤ گے اور جیل جانے سے ڈرو گے۔ مرنے سے ڈرو گے۔”

جب کسی بھی پارٹی پر بُرا وقت آتا ہے تو ایسے ورکرز اور امیدوار چاہئیں  جو کہ جیل جانے ، تشدد سہنے، عدالتوں کے چکر کاٹنے، حتی کہ مرنے کے لیے بھی تیار ہوں، اب جب پارٹی کا لیڈر (عمران خان) ہی جیل جانے سے ڈرے، مرنے سے ڈرے، تشدد سہنے سے ڈرے تو عام پارٹی ورکر یا امیدوار کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

انصافی بھائیوں بس یہ جان لیں کہ آپ کا لیڈر  کوئی بھگوان ہے نہ  ہی  دیوتا  اور نہ کوئی  پیر  ،اور  کوئی سیاسی انسان تو بالکل ہی نہیں ۔ بس ایک گھمنڈی اور انا پرست انسان ہے۔ جس کا بس یہ ہی کہنا ہے کہ
How Dare You to Touch Me.

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply