مان/ ڈاکٹر نویدؔخالد تارڑ

شام گزرے دیر ہو چکی تھی جب میں کشمیر ہائی وے پہ گاڑی سے اترا اور بائیں طرف مڑتی سڑک پہ پیدل چلنے لگا۔ ارادہ تھا کہ آگے دوسری سڑک  پہ جا کر آنلائن رائیڈ بک کروا لوں گا یا میٹرو پہ بیٹھ کر منزلِ مقصود کی طرف بڑھ جاؤں گا۔
کانوں میں ہینڈز فری لگائے موسیقی کا لطف لیتا میں آگے بڑھتا جا رہا تھا کہ میرے پاس ایک گاڑی آ رکی۔ ڈرائیونگ سیٹ پہ ایک ساٹھ سالہ ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ساتھ والی فرنٹ سیٹ پہ کوئی پینتیس چالیس سالہ آدمی۔ میرے پاس گاڑی رکی تو میں کانوں سے ہینڈز فری اتار کر ان کی طرف متوجہ ہو گیا۔
فرنٹ سیٹ والے آدمی نے پوچھا “کہاں جانا ہے؟”
میں نے بتایا کہ بس یہ سائیڈ روڈ سے آگے جا کر ٹیکسی لینی ہے۔ اس نے پھر پوچھا کہ جانا کہاں ہے۔
میں نے منزل مقصود کا بتا دیا تو ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے سفید بالوں والے ادھیڑ عمر آدمی نے کہا “آؤ بیٹھ جاؤ”
میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا تو وہ ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا دوبارہ بولا “آؤ بیٹھ جاؤ”
میں ایسے کبھی کسی کے ساتھ سوار تو نہیں ہوا لیکن اس دن جانے کیا خیال آیا کہ میں ان کی بات مان کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔

گاڑی چل پڑی ، تو میں نے گردن گھما کر گاڑی کا بغور جائزہ لیا۔ پچھلی سیٹ پہ میں اکیلا ہی بیٹھا ہوا تھا۔ دھیمی رفتار میں آگے بڑھتی گاڑی میں پرانی غزلیں چل رہی تھیں۔ ان دونوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی آپس میں کوئی گفتگو کی۔
سات آٹھ منٹ بعد انھوں نے گاڑی ایک طرف روکی تو فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا آدمی اتر گیا اور سلام کرتا ہوا رخصت ہو گیا۔ میں نے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے ہوئے آدمی سے کہا کہ میں بھی اتر جاتا ہوں تو وہ بولا “نہیں، میں نے بھی اسی طرف جانا ہے۔ بیٹھے رہو”

گاڑی پھر سے چل پڑی ، چند منٹ بعد ہم مطلوبہ مقام پہ پہنچ گئے۔ میں گاڑی سے اترا تو ان سے درخواست کی کہ آئیں میرے ساتھ ایک کپ چائے پئیں۔ انھوں نے نرمی سے انکار کر دیا۔ میں نے پھر اصرار کیا کہ اگر کوئی جلدی نہیں تو آ جائیں چائے پیتے ہیں۔ کچھ تامل کے بعد وہ راضی ہو گئے۔ ہم دونوں پاس ہی بنے ایک کوئٹہ کیفے پہ بیٹھ گئے۔

باتیں شروع ہوئیں تو انھوں نے بتایا کہ میں اٹک سے ہوں۔ پہلے سرکاری ملازم تھا، اب ریٹائر ہو کر زندگی کے مزے لے رہا ہوں۔
کچھ ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیں پھر میں نے پوچھا کہ آپ نے ایسے ہی مجھ انجان کو گاڑی میں بٹھا لیا۔ تو بتانے لگے
“وہ جو دوسرا آدمی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا ، اسے بھی میں نے لفٹ ہی دی ہوئی تھی۔ میں ابھی اٹک سے آ رہا ہوں تو رستے میں دو اور بندوں کو بھی لفٹ دے کر آیا ہوں۔ میری شروع سے عادت ہے کہ میں گاڑی لے کر نکلوں تو جو بھی ملے اسے لفٹ دے دیتا ہوں۔

وہ عمر میں مجھ سے دوگنا سے بھی بڑے تھے۔ میں انھیں کوئی مشورہ دینے کی پوزیشن میں تو بالکل نہیں تھا لیکن وہی سب خیال میرے ذہن میں بھی آنے لگے جو ایسے میں ہم میں سے کسی کے بھی ذہن میں آ جاتے ہیں کہ ایسا کرنا تو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کبھی کوئی برا انسان ٹکرا جائے تو جانی یا مالی کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچا سکتا ہے۔
میں نے یہ سب ان سے نہیں کہا لیکن ہلکے سے خدشے کا اظہار کیا کہ ایسا کرنا تو نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ تو وہ ہنستے ہوئے بولے
“مجھے اپنے خدا پہ یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا اور خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرا بھرم رکھا ہوا ہے اور ایسا کبھی کچھ نہیں ہوا۔”

پھر کہنے لگے
“ایسا نہیں ہے کہ برے انسان نہیں ملتے۔ میری تو شروع سے ایسی عادت ہے تو میں ہر طرح کے لوگوں کو لفٹ دیتا رہا ہوں۔ کئی دفعہ بری نیت والے بھی گاڑی میں آ بیٹھے لیکن انھوں نے بھی مجھے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا”

میں نے بے یقینی سے انھیں دیکھا تو کہتے۔۔
“میں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک دفعہ میں اسلام آباد میں ہی جا رہا تھا کہ کسی سڑک کنارے کھڑی ایک برقعہ پوش خاتون نے میری گاڑی کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا۔ مجھے پہلی نظر میں وہ اپنے ہی آفس کی ایک پرانی کولیگ لگی۔ میں نے گاڑی روکی تو اندازہ ہوا نہیں یہ کوئی اور ہے۔ لیکن میں نے اسے لفٹ دے دی۔ وہ خاتون میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے پوچھا کہاں جانا ہے تو انھوں نے تھوڑی دور ایک مقام کا نام لے لیا۔ میں نے گاڑی چلا دی تو چند لمحے کی خاموشی کے بعد وہ خاتون بولی کیا کرتے ہیں آپ؟ میں نے بتایا سرکاری ملازم ہوں تو کہنے لگیں شادی ہو گئی ہے آپ کی؟ میں نے کہا آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں۔براہِ مہربانی خاموشی سے بیٹھیں۔ اس خاتون نے چند لمحے مجھے گھورا اور پھر کہا بس یہیں اتار دیں مجھے۔ میں نے کہا آپ کا سٹاپ تو آگے ہے ، لیکن وہ وہیں اترنے پہ بضد تھیں تو میں نے اتار دیا اور آگے بڑھ گیا۔ تھوڑا آگے جا کر پیچھے دیکھا تو وہ اب کسی اور گاڑی کو رکنے کا اشارہ کر رہی تھیں۔
کچھ دن بعد یہ واقعہ ایک کولیگ کو سنایا تو اس نے مجھے بہت حیرت سے دیکھا۔ پھر بتانے لگا کہ اس جگہ پہ کچھ خواتین یہ دھندا کر رہی ہیں کہ گاڑی میں لفٹ لیتی ہیں اور پھر اچھے خاصے پیسے مانگتی ہیں۔ ساتھ یہ دھمکی دیتی ہیں کہ اگر پیسے نہ دیے تو میں اپنے کپڑے پھاڑ کر شور مچانا شروع کر دوں گی کہ یہ میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کولیگ نے بتایا کہ یہی واقعہ اس کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ اور وہ اچھی خاصی تگڑی رقم دے کر اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہوا تھا۔”

انھوں نے بات کرتے ہوئے کچھ لمحے کا وقفہ لیا ، پھر کہنے لگے
” وہ خاتون یقیناً بری نیت ہی رکھتی تھیں لیکن خدا نے ان کے دل میں جانے کیا خیال ڈالا کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچائے بغیر ہی اتر گئیں۔ بس ایسے ہی واقعات ہیں جو مجھے بتاتے رہتے ہیں کہ میں نے اپنے خدا پہ توکل کر کے غلطی نہیں کی۔ تو وہ مجھے کبھی میری اس نیکی سے نقصان نہیں پہنچنے دے گا”

Advertisements
julia rana solicitors

چائے آ چکی تھی اور میں اس میں سے اٹھتی بھاپ میں سے اس ساٹھ پینسٹھ سالہ بندے کا چہرہ دیکھ رہا تھا جسے خدا پہ یقین تھا کہ وہ اس کی نیکی کو پچھتاوا نہیں بننے دے گا اور خدا نے اس اخلاقی پستی کا شکار معاشرے میں اپنے بندے کا مان قائم رکھا ہوا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply