عقل گرے سکیل نہیں رکھتی-ادریس آزاد

عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینا ایک قدیمی پیشہ ہے۔کچھ لوگ نسل درنسل یہ کام کرتے ہیں۔ جھوٹوں کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ ،’’جھوٹ بولناہے تو اتنے اعتماد سے بولو کہ اپنے آپ کو بھی وہ سچ لگنے لگے‘‘ ۔یہ قول غلط نہیں، مسلسل جھوٹ بولنے سے یہ مقام میسر آبھی سکتاہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے کے لیے ایسے ہی اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ یعنی ایسے اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ شخص جو اِس درجے کی مہارت کا حامل ہوتاہے وہ اپنے ضمیر کی عدالت کے سامنے بھی جھوٹ بول سکتاہے۔ حالانکہ ضمیر کی عدالت وہ عدالت ہے جس کے سامنے جھوٹ بولنا تقریباً ناممکن ہے۔تاہم بہت زیادہ محنت اور مہارت سے یہ مقام بہرحال حاصل کیاجاسکتاہے۔

دراصل انسانی جسم جو کہ فی الاصل ایک حیوانی جسم ہی ہے، اپنے بے پناہ تقاضوں کے تحت عقلِ انسانی کو ہرہرپل مجبورکرتارہتاہے کہ عقل صرف اُسی کی بات مانے۔ صرف اسی کی فرمائش پر عمل کرے۔ صرف اسی کا احتجاج سنے۔اگرکبھی عقل اس کی بات نہیں مانتی یا سنا اَن سُنا کرتی ہے تو جسم اتنی شدت سے احتجاج کرتاہے کہ بالآخر عقل کو گٹھنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ نناوے فیصد سے زیادہ لوگ اس احتجاج کا سامنا نہیں کرسکتے۔

اگرزیرواعشاریہ کچھ، لوگ اس احتجاج کے موقع پر اپنے جسم کوشٹ اپ کال دیتے بھی ہیں تو وہ بہت تھوڑی دیر کے لیےخاموش ہوتاہے۔ چند ہی لمحات کے بعد وہ دوبارہ سے بلبلانے لگتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل اکثرہارجاتی ہے۔عقل جو انسانی دماغ میں بستی ہے، اِس حوالے سے بہت ہی بے اختیار ہے کہ اس کے پاس اپنے احکامات نافذ کروانے کے لیے کوئی فزیکل طاقت نہیں ہے۔ وہ بڑی بے بسی سے جسم کو اپنے فیصلوں پر حاوی ہوتا دیکھتی رہتی ہے اور پھر خود کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ جو ہوا وہ بھی ٹھیک ہے۔

ہم اگر غور کریں تو عقل بھی کمپیوٹر کی طرح بائنری فیشن میں کام کرتی ہے۔ کمپیوٹر کی زبان بائنری ہے۔ یعنی کمپیوٹر کوجب کوئی کمانڈ دی جاتی ہے تو وہ اس پر عمل اِس طرح کرتاہے کہ صرف اور صرف دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے اور بس۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور وہ دوچیزیں بُولیَن(Boolean) آپریٹرز ہیں۔ یہ اور وہ۔ یہ یا وہ۔ یہ بھی اور وہ بھی۔ یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں۔ اوراسی طرح کے جتنے بھی بُولین آپریٹرز ہیں کمپوٹرصرف انہی کے اصولوں پر عمل کرتاہے۔ کمپیوٹر صرف آن آف والا سوئچ ہے۔ بس ایسا سوئچ کہ جو کسی بات کو آن کررہاہوتاہے اور اس کے متضاد کسی اور بات کو آف کررہاہوتا۔ اس تمام عمل کو بائنری فیشن کہاجاتاہے۔ بالفاظ دیگر کمپیوٹرہمیشہ چیزوں کو صرف سیاہ و سفید کی صورت دیکھ سکتاہے۔

جَسٹ بلیک اینڈ وائیٹ۔ کمپیوٹر کی طرح عقلِ انسانی بھی بائنری ہے۔ اس کے پاس بھی فقط یہی دو آپشنز ہوتے ہیں۔اچھے یا بُرے میں سے کسی ایک کا انتخاب۔ بہتریاکم تر میں سے کسی ایک کا انتخاب، وغیرہ وغیرہ جیسے آپشن۔یہ جو ہمیں محسوس ہوتاہے کہ ہماری عقل بائنری نہیں بلکہ ملٹی ڈائمینشنل فیشن کی حامل ہے، یہ صرف اور صرف ہمارے جسم کی ان گنت خواہشات کی بدولت ہے۔ جسم، عقل کے معاملات میں مداخلت کرتاہے، جسے التباس کہاجاتاہے۔ اسی التباس کی وجہ سے ہمیں دنیا رنگین محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ التباس نہ ہوتا تو ہماری عقل شاید دنیا کو بھی بائنری فیشن میں پہچانتی۔ ایک طرف جہاں جسم ہمارے لیے یہ دنیا رنگین بنارہاہے، وہیں دوسری طرف عقل میں التباس پیدا کررہاہے۔ یہ التباس عقل کو گمانوں سے بھرنے لگتاہے۔ عقل کوئی آزاد متغیر نہیں ہے۔ عقل تابع متغیرہے۔ پیدائش سے موت تک زیادہ تر انسانوں کی عقل ان کے جسموں کے تابع ہی رہتی ہے۔ عقل کو جسم کی اتباع سے نکالنے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے، جسے ہندی زبان میں ’’تپسیّا‘‘ اور اردوزبان میں ’’مجاہدہ‘‘ کہاجاتاہے۔ یہ مشق یوگا کے ذریعے بھی ممکن ہے اور مذہبی عبادات خصوصاً تصوف کےطریقوں سے بھی۔ لیکن علومِ حق کے حصول سے اس کا امکان سب سے زیادہ ہے۔ علومِ حق کو مذہب کی زبان میں ’’خدا کی آواز‘‘ یا ’’خدا کا کلام‘‘ یا ’’وحی‘‘ کہاجاتاہے۔

علومِ حق کا حصول تین طریقوں سے ممکن ہے۔

۱۔ وہ براہِ راست کسی نکتۂ بصیرت کی صورت عقل پر وارد ہوسکتے ہیں۔
۲۔ وہ کسی شےکی حقیقت کو جاننے کے سفر کے دروان بے پناہ تحقیق کے بعد واضح ہوسکتے ہیں۔
۳۔ وہ کسی سچے استاد کے ذریعے ہمارے احاطۂ علم کا حصہ بن سکتے ہیں۔

اس بات کا ہمیں کیسے پتہ چلتاہے کہ جوکچھ ہمیں حاصل ہورہاہے یہ علمِ حق ہے؟ دراصل علم صرف ایک ہی ہے اور وہ یہی ہے، یعنی علمِ حق۔ باقی سب کچھ معلومات کے ذیل میں آتاہے۔ اوراِس علم کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ اس کے ورود سے دل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں۔ ایک سرشاری کا سا احساس ہوتاہے۔ مالامال ہوجانے کا سا احساس۔ اس کے برعکس معلومات کے حصول سے کچھ مہارتیں حاصل کی جاسکتی ہیں جو دنیاوی زندگی میں بڑے کام کی چیزیں ہیں۔ لیکن معلومات دل ودماغ کو روشن نہیں کرپاتیں۔ نہ ہی ان کے حصول سے سرشاری ملتی ہے، نہ مالامال ہوجانے کا سا احساس۔ بلکہ بعض معلومات تو بہت بور اور خشک محسوس ہوتی ہیں ، لیکن پھر بھی دنیاوی زندگی کے لیے بہت مفید ہوتی ہیں۔ جیسا کہ کسی بچے کے لیے ایسی معلومات کہ ’’دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا چاہیے‘‘ وغیرہ۔

عقل تابع متغیر ہے اور عقل کو ملنے والی ہدایات بائنری صورت میں موصول ہوتی ہیں، اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ عقل کوہمیشہ سیاہ و سفید میں انتخاب کرناہوتاہے، نہ کہ گرے(سُرمئی) میں سے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا کہ سُرمئی علاقہ جو سیاہ و سفید کے درمیان پایاجاتاہے وہ جسمانی التباس ہے۔ اگرچہ وہی ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا رنگین دکھائی دیتی ہےلیکن وہی التباس ہی ہے جو عقل کے تالاب کو گدلا کرتاہے۔ چونکہ عقل کو ہمیشہ سیاہ و سفید میں سے انتخاب کرناہوتاہے تو سوال یہ ہے کہ وہ سیاہ و سفید عقل کے سامنے کہاں سے وارد ہوتاہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عقل کے سامنے پیش آمدہ دوآپشنوں میں سے ایک جسم کی طرف سے اور دوسرا علمِ حق کی طرف وارد ہوتاہے۔ عقل کو ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتاہے۔ اگروہ جسم کی طرف سے آنے والے آپشن کا انتخاب کرے تو انسانی زندگی اور حیوانی زندگی میں کوئی فرق نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن اگر وہ علمِ حق کی طرف سے آنے والے آپشن کا انتخاب کرے تو ایک انسانی زندگی یکایک خدائی زندگی بن جاتی ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ یہ دونوں آپشن ہمیشہ ایک دوسرے کے متضاد یعنی سیاہ و سفید میں عقل کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ جسم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ عقل واضح اورروشن کو پوری طرح سے دیکھ ہی نہ سکے۔ وہ عقل کے تالاب کو گدلا دیتاہے یعنی التباس پیدا کردیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ نناوے فیصد سے زیادہ لوگ جسم کے حملوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ اوریہ مقابلہ کرنا آسان بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ اس کے لیے خاص قسم کی ’’تپسیاؤں‘‘ اور ’’مجاہدوں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یا پھر قدرت کسی انسان کا انتخاب(نیچرل سیلیکشن) کرلے اور علمِ حق کے لیے اُسے چُن لے، یعنی وہ ان اللہ اصطفیٰ کی فہرست کا حصہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسانی زندگی دونوں صورتوں میں ایک تھکادینے والی زندگی ہے۔ یعنی اگر ایک انسان صداقت کا راستہ اختیار کرتاہے تو تب بھی التباسات دیر تک اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ یہاں تک وہ مکمل طورپر جیت جاتاہے اور پھر جسم بھی جان جاتاہے کہ اب مزید احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں۔ اوردوسری زندگی بھی بہت مشکل ہے، یعنی اگر آپ اتنے ماہر بھی ہوجائیں کہ اپنا جھوٹ خود آپ کو سچ لگنے لگے، تب بھی زندگی نہایت مشکل ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں جسمانی زندگی کا آرام و آسائش ایک ندامت کی طرح عمربھرشخصیت پر سوار رہتاہے اوربالآخرشخصیت کوفنافی الدنیا کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برباد کردیتاہے۔ ضروری نہیں کہ اس ندامت کا ہمیں عقلی طور پر ادراک بھی ہو۔ ندامت صرف چہرے، آنکھوں، اور ناک نقشے میں بھی گھُس سکتی ہے اور شخیصت کے پورے ڈیل ڈول میں بھی نظر آنے لگتی ہے۔ اوریہی ندامت ہے جسے عام انسان ’’کربِ وجود‘‘ کے نام سے جانتاہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply