قلب ماہئیت -1/شہزاد ملک

آگہی سے بڑا کوئی عذاب نہیں کسی غلطی کا جب تک ادراک نہیں ہوتا تو انسان کی زندگی آسان ہوتی ہے جب اس غلطی سے شعوری آگاہی ہوجاتی ہے تو پھر احساس جرم چین نہیں لینے دیتا یہی حال ریحانہ کا ہورہا تھا وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ جو خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والی ہے اس نے ایک بت پرست سے جیون بھر کا ناطہ جوڑ لیا ہے وہ یہ بھی جان چکی تھی کہ یہ ناطہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے یکسر خلاف ہے اور ان کا آپس کا تعلق حدود اللہ سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے
تین چار دن انتظار میں گذر گئے کہ دیکھیں راکیش اور ریحانہ اپنے مستقبل کا کیا فیصلہ کرتے ہیں ہم یہ بھی سمجھتے تھے کہ یہ بہت کڑی آزمائش تھی اور فیصلہ بہت کٹھن ہے ایک شام یہ انتظار ختم ہوا اور راکیش اور ریحانہ ہمارے گھر آئے انہیں دیکھ کر میرے تو دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوگئی لیکن جب ریحانہ کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر مجھے بھی کچھ حوصلہ ہوگیا معمول کی خاطر تواضع کے بعد اطمینان سے بیٹھے تو راکیش نے بات کا آغاز کیا اور کہا
ملک بھائی ریحانہ نے ہماری شادی کی حیثیت کے بارے میں مجھے بتایا ہے ہمارے ملک میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھی جاتی مسلمان ہندو اور عیسائی سب آپس میں شادیاں کرنے کو عار نہیں سمجھتے زیادہ سے ذثیادہ والدین ایسی شادیوں کی مخالفت کرتے ہیں قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے ریحانہ کو کئی سال پرکھنے کے بعد میں نے اس سے شادی کا فیصلہ کیا تھا اپنی ہندو کمیونٹی میں اس جیسی کوئی لڑکی مجھے دکھائی نہیں دی تھی اس کے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اس نے اپنی رضامندی ظاہر کی تو ہم نے کورٹ میرج کر لی ہماری آپس میں بڑی انڈرسٹینڈنگ ہے ہمارا بیٹا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے ہم ایک بھرپور اور خوش باش زندگی گذار رہے ہیں اب جب کہ ہمارے درمیان مذہب آگیا ہے اور اس کی شرط یہ ہے کہ کلمہ گو مسلمان عورت غیر مذہب میں شادی نہیں کرسکتی تو اس کا صاف مطلب تو یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں میں نے اس پہلو پر بہت سوچا ہے مگر اس پر عمل کرنا میرے لئے ناممکن ہے ہمارے بیٹے کا کیا ہوگا وہ ابھی بہت چھوٹا ہے اسے ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہے اس کے بغیر اور ایک دوسرے کے بغیر بھی ہم دونوں نہیں رہ سکتے اس صورت حال میں میرے پاس یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ میں اسلام قبول کر لوں اس طرح ہماری فیملی بکھرنے سے بچ جائے گی آپ بتائیں میں کیا کروں ہم دونوں نے اس کی بات بہت دھیان سے سنی وہ بات کرچکا تو ملک صاحب نے کہا راکیش اسلام ایسی راہ نہیں ہے جسے کوئی اپنے مطلب کے لئے اختیار کرلے اور دل میں اس کی کوئی چاہ نہ ہو تم پیدائش سے اب تک جس راستے پر چلتے آئے ہو شادی بچانے کی خاطر بغیر کسی رضا و رغبت کے کیسے اس راستے کو چھوڑ کر ایک انجانی راہ پر چلو گے ایسا کیسے ہوگا کہ زبان پر کلمۂ توحید ہو اور دل آستانۂ بتاں ہو یہ منافقت ہوگی جو اللہ کی نظر میں کفر سے بھی بڑا گناہ ہے آپ جب تک اسلام کی حقانیت کے دل سے قائل نہ ہوں تب تک ایسا قدم اٹھانا مناسب نہ ہوگا آپ اچھی طرح اس پر سوچ بچار کرلیں پھر فیصلہ کریں کیونکہ اس راہ سے واپسی ممکن نہیں ہے
ریحانہ نے بتایا کہ میری حد سے بڑھی ہوئی بے چینی دیکھ کر راکیش نے  وجہ پوچھی اور جب میں نے وجہ بتائی تو ایسا لگا جیسے اسے کئی سو والٹ بجلی کا جھٹکا لگا ہو وہ ساکت رہ گیا کئی دن تک وہ کچھ نہ بولا بس چپ چاپ مجھے دیکھتا رہتا کبھی بیٹے کو گلے لگا کر بھینچتا کبھی ٹھنڈی آہیں بھرتا اور کئی دن کی سوچ بچار کے بعد اس نے مجھے اپنا فیصلہ سنایا کہ وہ کسی صورت میں اپنی محبوب بیوی اور بیٹے کو اپنے سے دور نہیں کرسکتا خواہ اس کے لئے مجھے اپنا مذہب خاندان جائیداد اور دوستیاں چھوڑنی پڑیں ریحانہ کو اس کی باتوں نے بے حد خوش کردیا وہ تو ہواؤں میں اڑ رہی تھی لیکن یہاں مرحلہ یہ تھا کہ اس کے لئے کیا طریقۂ کار ہوگا اور اسی مقصد کے لئے وہ ہم سے مشورہ کرنے آئے تھے لیکن ہم نے انہیں جلد بازی میں فیصلہ کرنے کی بجائے اس پر مزید سوچ بچار کرنے کے بعد فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا راکیش اگر اپنی دلی رضامندی اور خوشی سے دائرۂ اسلام میں داخل ہونا چاہے گا تو پھر کوئی مناسب طریقہ سوچا جائے گا وہ دونوں ہمارا مشورہ مان کر چلے گئے
دو تین دن اپنی دفتری مصروفیات کی وجہ سے وہ نہ آ سکے اور چوتھے دن آئے تو راکیش نے بڑے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ اسلامی ملک میں رہنے اور مسلمانوں سے میل جول رکھنے کے دوران وہ اسلامی کلچر طریقۂ عبادات بھائی چارے اور ذات پات کی اونچ نیچ سے بے نیازی سے بہت متاثر ہوا ہے اسلام کی ان خوبیوں نے اس کے دل میں اسلام کے ساتھ لگاؤ اور رغبت پیدا کردی ہے اور وہ اپنی خوشی سے اسلام کو بطور مذہب اختیار کرنا چاہتا ہے اس کی باتیں سن کر ریحانہ سمیت ہمیں بہت خوشی ہوئی بالآخر وہ صحیح معنوں میں ہمارے بھائی بہن بننے جارہے تھے راکیش کی قلب ماہئیت ہو چکی تھی
اب اگلہ مرحلہ درپیش تھا کہ اس کار خیر کو کیسے بخیر و خوبی انجام تک پہنچایا جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply