یہ ایک فراڈ تھا/اظہر سید

یہ سیاسی جماعت تھی ہی نہیں بلکہ ایک بندوبست تھا ۔ اس طرح کا بندوبست جو مسلم لیگ ق ،پیپلز پارٹی پیٹریاٹ ،جنرل ضیا کی مسلم لیگ جونیجو یا پھر جنرل ایوب کی کنونشن لیگ ۔ یہ بندوبست تھا ایم کیو ایم ایسا جیسے پیپلز پارٹی کے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے بنایا گیا ۔یہ بندوبست پنجابی پختون اتحاد ایسا تھا جیسے ایم کیو ایم کو محدود رکھنے کیلئے مالکوں کی آشیر باد سے ایک مخصوص وقت میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا۔
پیپلز پارٹی مالکوں نے نہیں بنائی بلکہ بھٹو نے مالکوں سے بغاوت کر کے اسکی بنیاد رکھی اور پھانسی کے پھندے پر جھول کر بغاوت کی سزا پائی ۔
مسلم لیگ ن بھی مالکوں نے نہیں بنائی بلکہ غلام اسحاق خان کے خلاف تقریر کر کے نواز شریف نے بھی مالکوں سے بغاوت کی اور پھر مسلسل اس بغاوت کی سزا بھگتی۔
ن لیگ اس لحاظ سے خوش قسمت تھی اس کے پاس بیڈ کاپ نواز شریف کے ساتھ گڈ کوپ شہباز شریف تھا ۔پیپلز پارٹی اس لحاظ سے بدقسمت تھی اس کے پاس کوئی گڈ کوپ موجود نہیں ،اسی لئے بینظیر مری اور آصف علی زرداری نے گیارہ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر وفا نبھائی۔
تحریک انصاف کے پاس بھٹو تھا نہ نواز شریف صرف ایک نوسر باز تھا جس کے پاس کوئی وژن تھا نہ  ملک سے محبت۔
تحریک انصاف چند جنرلوں کی خود غرضی اور اپنے مفادات کا مخصوص مائنڈ سیٹ تھا ۔مرکز میں اس گھوڑے پر داؤ لگانے سے قبل خیبر پختونخوا میں پانچ سال صوبائی حکومت دی گئی ۔ اس پانچ سال میں خود غرضی،کرپشن اور نا اہلی دیکھنے کے باوجود اس نوسر باز پر صرف نواز شریف اور زرداری کے میثاق جمہوریت کی وجہ سے داؤ لگا دیا گیا ۔
فوج کیلئے جتنا خوفناک تجربہ اس نوسر باز پر داؤ لگانے کا تھا وہ نو مئی کے واقعات سے سامنے آگیا ہے۔
بھٹو کی پھانسی،بینظیر کے قتل اور نواز شریف کے خلاف یکطرفہ احتساب کے باوجود کسی پارٹی نے فوج کو نشانہ نہیں بنایا۔ تنقید کی بھی تو مخصوص جنرلوں پر کی فوج کو بطور ادارہ کسی نے نشانہ نہیں بنایا ۔اس شخص نے تو فوج کو بطور ادارہ ہدف بنایا اور 2018 کے ناکام تجربہ کے تخلیق کاروں اور سہولت کاروں کی باقیات کی مدد سے فوج کو نشانہ بنانے کا داؤ کھیل دیا ۔
اس شخص کیلئے جنرلوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ففتھ جنریشن وار کے نام پر ایک پوری پلوٹون کھڑی کر دی ۔لاکھوں نوجوانوں ،بوڑھوں ،بچوں اور خواتین کو ففتھ جنریشن وار کی مدد سے اسکا دیوانہ بنا دیا ۔اس پلوٹون کی مدد سے نواز شریف کو غدار،اصف علی زرداری کو بدعنوان اور مولانا فضل الرحمٰن کو مولانا ڈیزل کے نام سے مشہور کر دیا ۔
سیاستدانوں نے بالکل ٹھیک چالیں چلی ہیں ۔خود کو بے بس ظاہر کر کے اسے ایک سال کے دوران کھلی چھوٹ دئے رکھی ۔توقعات کے عین مطابق کھوتے نے آخر میں بم کو ہی لات مار دی ۔
بم نے پھٹنا تھا اور اس بندوبست نے ختم ہونا تھا ۔جنرلوں نے بھی مزا چکھنا تھا اور کہنہ سیاستدانوں نے بتانا تھا
“مزا  آیا”
جمہوریت پسند پاکستانی تحریک انصاف کی کشتی سے چھلانگیں لگانے والے چوہوں پر رنجیدہ نہ ہو اور اسے سیاسی جماعت سمجھنے کی غلطی بھی نہ کریں ۔یہ ایک بندوبست تھا مختلف جماعتوں سے چوہے پکڑ کر اس جہاز میں سوار کرائے تھے ۔انہوں نے چار سال جہاز کے چوٹے لئے اور جہاز ڈوبتا دیکھ کر چھلانگ لگا گئے ۔
سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن ،عوامی۔نیشنل پارٹی یا پھر جے یو آئی ایسی ہوتی ہیں ۔سیاسی جماعتوں میں چوہے نہیں ہوتے بلکہ سالوں سزائیں بھگتنے اور کوڑے کھانے والے کارکن اور لیڈر ہوتے ہیں۔یہاں تو دو دن کی قید سے چیں بول گئی ہے ۔ جو لوگ دو تین دن کی قید برداشت نہیں کر سکتے ان کیلئے رنجیدہ ہونا کچھ مزیدار بات نہیں۔
آب فوجیوں کے پاس کوئی حلیف نہیں ۔پالتو جج بھی حلیف نہیں بلکہ وقتی بندوبست ہوتے ہیں۔ وقت کی لگام سیاسدانوں کے پاس آرہی ہے ۔جلد ہی پالتو ججوں سے چھٹکارہ بھی مل جائے گا ۔
اس ملک کا مستقبل سیاستدانوں کے ہاتھ آرہا ہے ۔میرٹ پر تعیناتیاں کریں ۔نظام انصاف میں اصلاحات کریں اور صرف قانون و انصاف پر چلنے والے جج عدالتوں میں لائیں ۔
نوسر باز کے تجربہ سے سب نے سبق حاصل کیا ہے ۔ہمیں نہیں لگتا فوجی اگلے دس پندرہ سال کوئی اور تجربہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔ان دس پندرہ سالوں میں ملک کو معاشی طور پر ترقی یافتہ بنائیں اور طاقتور پارلیمنٹ کے زریعے داخلہ اور خارجہ امور کی ملکیت مالکوں سے چھین لیں تاکہ پاکستان بھی مہذب ترقی یافتہ جمہوری ریاست بن سکے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply