میں انگریزی بھول گیا -3/ڈاکٹر مجاہد مرزا

“مثل برگ آوارہ”سے
ایمرجنسی روم میں پہنچنے کے کوئی دس منٹ بعد ایک ڈاکٹر نے میرے دائیں کان کے اوپر والے حصے پر افقاً  تین ٹانکے لگائے تھے کیونکہ یہ کان چرا ہوا تھا۔ غالباً حملہ آور نے سر پر وار کرنے کے بعد جب میں گر گیا تھا تو میرے سر کو ٹھوکروں پر رکھ لیا تھا۔ سر اور ناک سے خون بہنا سمجھ آتا تھا لیکن کان کیسے چرا اسی سے اندازہ ہوا تھا کہ ٹھوکریں ماری ہونگی۔

میری جیکٹ کی جیب میں اور اندرونی جیب میں رکھی ہوئی ہوٹل کی خاصی کمائی میں سے ایک کرنسی نوٹ تک غائب نہیں ہوا تھا۔ کان سی دیے جانے کے بعد ایک دوسرے ڈاکٹر نے میری ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے حرام مغز سے تجزیہ کرنے کی خاطر مائع نکالا تھا۔ سرنج میں بھرا خون آلود مائع دکھا کر ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا،” لگتا ہے نتیجہ کچھ اچھا نہیں ہوگا” اس کی اس بات پر میں خاموش رہا تھا۔ پھر مجھے ہسپتال کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

تھوڑی دیر بعد نینا روتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ میں نے اسے کہا تھا کہ کیا تمہیں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میں مر جاؤں گا، تسلی رکھو میں نہیں مروں گا۔ نینا روتی رہی تھی۔ اس نے بہت دنوں کے بعد بتایا تھا کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگلے چوبیس گھنٹے انتہائی نازک ثابت ہو سکتے تھے۔ مجھے اتنی معلومات تو تھیں ہی کہ اگر خون دماغ کی جھلی سے گذر کر حرام مغز میں داخل ہو جائے تو ایسے میں بچنا مشکل ہوتا ہے لیکن مجھے جو سدا کا وہمی تھا بے حد یقین تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ میں نے اس دوران جب میں باہوش دنیا میں نہیں تھا کچھ دیکھا تھا۔ جو دیکھا تھا وہ ابھی کسی کو نہیں بتانا چاہتا تھا کیونکہ مجھے بذات خود بہت سے شکوک تھے جیسے کہیں یہ میری اپنی سوچ تو نہیں تھی؟ کہیں میرے زندہ رہنے کی خواہش کا نتیجہ تو نہیں تھا؟ کہیں میں نے یہ گمان تو نہیں کر لیا تھا؟ ان سب کے باوجود میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیا تھا؟

شام ڈھلنے کے بعد ذوالفقار اور اس کا وہ دوست جو اس کے کرتوتوں میں شامل تھا، میری عیادت کرنے ہسپتال پہنچے تھے۔ اس وقت تک میرا چہرہ اور خاص طور پر دائیں جانب کی آنکھ اور ناک کا دایاں حصہ پھول کر کپا ہو چکے تھے۔ چہرے کے اس حصے پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے زخم تھے۔ میر ی  شکل دیکھ کر ذوالفقار کی شکل پر تکلیف کے اثرات ہویدا تھے مگر اس کا دوست مطمئن رہا تھا البتہ اس نے میرے چہرے کی جانب دیکھ کر اپنی مخصوص پنجابی میں کہا تھا “کام کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے”۔ اس کے کہے اس فقرے سے مجھے شک ہو گیا تھا کہ کہیں یہ کارستانی ذوالفقار کے کہنے پر اس کے دوست نے اپنے کسی روسی شہدے دوست سے نہ کروائی ہو۔ یولیا کا چھن جانا، ذوالفقار کے دوست شاہد کی بلائی لڑکی سے میرا وصل اور ساتھ ہی مجھے یاد آیا تھا کہ بہت پہلے جب ایک اور ہوٹل میں اپنے کسی دوست کے دفاع کے لیے ذوالفقار کا یہ دوست جو تب اس کا شناسا تک نہیں تھا، ذوالفقار سے لڑنے آیا تھا تو تب میں اپنے دو شناسا نوجوانوں کے ہمراہ اس ہوٹل سے باہر نکلا تھا اور ساتھ ہی اس شخص کا وہ دوست بھی جس کے دفاع میں یہ پہنچا تھا۔ میرے یہ دونوں ساتھی اس کے اس دوست پر پل پڑے تھے۔ میں نے لڑائی روکنا چاہی تھی۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا تھا، ڈاکٹر آپ ہمارے دوست ہیں یا اس کے، مارو اسے۔ میں نے بھی ایک دو ہاتھ جڑ دیے تھے اس طرح کہ وہ میری آڑ لے کر بھاگ جائے اور وہ بھاگ گیا تھا۔

ہسپتال میں قیام کے دوران نینا کے علاوہ ظفر نے میرا خاص خیال رکھا تھا۔ ماسکو کے ہسپتالوں میں تیمار داری کرنا تو عملے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن مریض شخص کو اوقات ملاقات کے دوران کسی کا روز ملنے آنا بھی بڑی بات تھی۔ ظفر مزے مزے کے کھانے بنا کر لاتا تھا لیکن چار روز بعد ہی کھانوں کے ذائقے میرے لیے لذت کھو چکے تھے کیونکہ مجھ کو شدید لقوہ ہو گیا تھا۔ میرے چہرے کا بایاں حصہ دائیں جانب کھنچ گیا تھا۔ بائیں آنکھ بند ہونے سے قاصر تھی۔ مجھے یاد آیا تھا کہ مجھے جوانی میں بھی ایک بار لقوہ ہوا تھا، چہرے کی کس جانب البتہ اس بارے میں اسے یاد نہیں رہا تھا۔

دوسرے روز آلسو مجھ سے ملنے آئی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ آنے سے پہلے مستقبل کا حال بتانے والی کسی بوڑھی کے پاس گئی تھی جس نے بتایا تھا کہ مرزا طویل عمر پائے گا اگرچہ ابھی وہ موت و حیات کی کشمکش سے گذرا تھا۔

تیسرے روز یولیا کو پتہ چلا تو وہ بھی آ گئی تھی۔ وہ میرے لیے ہرمن ہیس کی کتاب سدھارتھا خرید کر لائی تھی۔ اتنے مختصر تعلق کے بعد بھی اسے میرے ذوق کا پتہ چل گیا تھا یہ میرے لیے خوش کر دینے والی بات تھی۔ وہ ہسپتال میں بھی اپنی شرارت اور مہارت سے باز نہیں آتی تھی۔ میرا سہارا لے کر ہسپتال کے بیڈ پر بیٹھے، میرے کمبل تلے ہاتھ دے کر دست درازی کرتی رہتی تھی اور اپنی خوبصورت مسکراہٹ مسکرائے جاتی تھی، بعض اوقات کھلکھلا کر بھی ہنس دیا کرتی تھی۔ میں ظفر اور یولیا دونوں کا شکر گذار تھا۔

مجھے ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں یولیا کے ہوتے ہوئے نینا نہ آ جائے۔ اس نے اس خدشے کا ذکر یولیا سے کیا تھا تو اس نے حسب معمول شرارتی انداز میں کہا تھا “میں جھٹ سے کسی اور مریض کے بیڈ پر جا بیٹھوں گی”۔ لیکن اس سے ایسا نہیں ہو سکا تھا کیونکہ نینا نہیں آئی تھی بلکہ اس کا بیٹا ساشا آیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ ہسپتال میں نہانے کا انتظام نہیں تھا۔ میں نے نینا سے کہا تھا کہ اگر اس کا داماد لیونیا آ کر مجھے تھوڑی دیر کے لیے اپنی گاڑی پر گھر لے جائے تو میں نہا کر واپس ہسپتال آ جاوں گا۔ ایک روز یولیا آئی ہوئی تھی۔ مجھے مثانہ ہلکا کرنے کی حاجت محسوس ہوئی تھی، میں یولیا کو اپنے بیڈ کے پاس بیٹھی چھوڑ کر چلا گیا تھا۔

باہر چونکہ سردی تھی چنانچہ نینا نے اپنے داماد کے ہمراہ ساشا کو میری جیکٹ دے کر بھیجا تھا۔ ساشا نے جب لڑکی کو بیٹھے دیکھا تو ماں کی محبت میں اسے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا تھا۔ وہ چلی گئی تھی۔ جب میں باتھ روم سے لوٹا تو وہ موجود نہیں تھی البتہ ساشا جیکٹ لیے متشنج چہرے کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے اس سے استفسار کرنا مناسب خیال نہیں کیا تھا اور جیکٹ پہن کر اس کے ہمراہ جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ جب لیونیا نے ہمیں گھر کے باہر یہ کہتے ہوئے ڈراپ کیا تھا کہ میں ایک گھنٹے بعد آ کر ہسپتال پہنچا دوں گا تو ساشا اور میں عمارت میں داخل ہو کر لفٹ میں داخل ہوئے تھے۔ لفٹ میں ساشا نے یولیا کے بارے میں پوچھا تھا تو میں نے اسے ڈانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ اپنی ماں سے ذکر نہ کرنا۔

ساشا کے تیور دیکھ کر مجھے خود پر ہوئے حملے کے سلسلے میں اس پر بھی شک ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساشا اب بڑا ہو چکا تھا۔ جن بچوں کے ماں باپ کے درمیان طلاقیں ہو جاتی ہیں اور مائیں دوسرے مردوں کی بیویاں بن جاتی ہیں تو بچے بڑے ہو کر ان مردوں کے مخالف ہو جایا کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان مردوں نے ان کے باپوں کی جگہ لینے کی کوشش کی ہے۔ ایسا ہی ساشا کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ایک روز جب وہ بہت نشے میں گھر پہنچا تھا تو میں دروازے سے باہر برآمدے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ ساشا نے سرخ سرخ آنکھیں نکال کر دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا، “اگر تم نے کبھی میری ماں کا دل دکھایا تو تمہیں اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودنی ہوگی”۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ نشے میں یہ بکواس کر رہا تھا اس لیے میں نے کہا تھا،” اگر مجھے مرنا ہی ہوگا تو میں کیوں اپنی قبر کھودوں گا، جو مارے گا وہ قبر بھی کھود لے گا “۔ مجھے لگا تھا کہ کہیں ساشا نے تو اپنے کسی لفنگے دوست کو میرے پیچھے نہیں لگا دیا تھا۔

بہت بعد میں پتہ چلا تھا کہ ساشا نے یولیا کے بارے میں اپنی ماں کو بتا دیا تھا۔ وہ درپے ہو گئی تھی کہ مجھے چھوڑ دے گی لیکن نینا کے ہی بقول اس کی بیٹی آلا نے سمجھایا تھا کہ جس حالت میں اس وقت مرزا ہے، ایسے میں کوئی ایسا قدم اٹھانا مناسب نہیں۔ وہ صحت یاب ہو جائے تو طے کر لینا۔

یولیا اس واقعے کے بعد بھی آئی تھی مگر تب میں کسی کے ساتھ ہسپتال سے باہر بیٹھا ہوا تھا۔ جب میں کمرے میں لوٹا تھا تو ساتھی مریض نے بتایا تھا، “تمہاری بیٹی تمہیں ملنے آئی تھی” میں نے اس کی تصحیح کرنے سے اغماض برتا تھا۔

جو ماہر اعصاب میرا معالج تھا۔ اس نے سختی سے مجھے منع کیا تھا کہ لقوہ کا مکمل علاج کیے جانے کی خاطر الکحل سے یکسر گریز کیا جانا ہوگا مگر جو ڈاکٹر رات کی ڈیوٹی پر ہوتا تھا، اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہارا ڈاکٹر یونہی کہتا ہے، آو بیئر پیتے ہیں۔ اس کے کہنے پر میں نے اس ڈاکٹر کے ساتھ چند بار بیئر پی لی تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ میرے لقوہ کا صد در صد مداوا نہیں ہو پایا تھا۔

مجھے سب سے بڑا صدمہ لقوہ سے نہیں ہوا تھا جو میری شاہد بازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا بلکہ ایک اور مظہر سے ہوا تھا۔ وہ ایسے کہ ایک روز میرے سامنے پیالی پڑی ہوئی تھی۔ میں جانتا تھا کہ پیالی کو اردو میں پیالی کہتے ہیں اور روسی زبان میں چیاشکا لیکن انگریزی میں کیا کہتے ہیں اسے بھول چکا تھا تاحتٰی یہ بھی بھول چکا تھا کہ انگریزی کو انگریزی زبان میں انگلش کہتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ میں تو انگریزی کا ایک ایک لفظ بھول چکا تھا۔ میں تلملا اٹھا تھا اور بہت زیادہ پریشان ہو گیا تھا۔

اگلے دن جب میرا معالج راؤنڈ پر آیا تھا تو میں نے اس سانحے کے بارے میں اسے بتایا تھا۔ ڈاکٹر مسکرا دیا تھا اور اس نے کہا تھا،” گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اسے طب کی زبان میں “ترانزی یینٹ ایمنیزیا” یعنی عارضی نسیان کہتے ہیں، وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا”۔

کوئی بیس روز کے بعد مجھے ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ میں اگلے ہی روز ہوٹل پہنچا تھا۔ ہوٹل میں ایک بہت شفیق میٹرن ہوا کرتی تھی جو مجھے اتفاق سے لفٹ میں ملی تھی۔ جب اس نے میرے بگڑے چہرے کی جانب دیکھا تھا تو میں نے بے اختیار کہا تھا، “دیکھیں میرے چہرے کے ساتھ کیا ہو گیا ہے”۔ شفیق عورت نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، ہاتھ پیر تو سلامت ہیں ناں۔ اس پر مجھے احساس ہوا تھا کہ واقعی درست کہتی ہے۔ میں نے ہسپتال میں ایک ایسے نوجوان کو دیکھا تھا جو سر کی چوٹ سے اس قدر متاثر ہوا تھا کہ اس کو اپنی چال اور ہاتھوں کی حرکات پر قابو نہیں رہا تھا، عجیب بے ڈھنگے طریقے سے چلتا تھا۔ میں نے اس خدا کا لاکھ شکر ادا کیا تھا جس کو میں اب تک نہیں مانتا تھا۔ البتہ مجھے ہوش میں آنے سے پہلے جو دکھائی دیا تھا، اس سے وہ سوچنے پر مجبور ضرور ہو گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply