بیوی کا چھاپہ اور قاتلانہ حملہ-3/ڈاکٹر مجاہد مرزا

“مثل برگ آوارہ “سے!
جب یولیا دوسری بار آئی تھی تو سیدھی دفتر میں پہنچی تھی۔ اس وقت وہاں ذوالقار موجود نہیں تھا البتہ اس کے گاؤں سے کچھ عرصہ پہلے آیا ہوا اس کا کوئی عزیز یا دوست شاہد نامی موجود تھا، جس کے ذمہ کرایہ داروں سے کرایہ وصول کرنے کا کام تھا۔ ایک اور نوجوان بھی بیٹھا تھا جو الٹے سیدھے کاموں میں ذ والفقار کا شریک کار تھا اور بنیادی طور پر موٹر مکینک۔ وہ روسیوں کی مانند روسی بولتا تھا، مگر گلی والی روسی زبان۔ روسیوں کی طرح ہی دھمکا کر کسی کے پاؤں سے زمین کھینچ سکتا تھا۔ خوبرو تھا مگر یکسر اَن پڑھ ،البتہ اس نے اپنے اطوار سے یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ اس کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔

میں نے یولیا کے نام کمرہ بک کروا کے اسے کمرے میں انتظار کرنے کو کہا تھا اور روزانہ کرائے کی وصولی اور حساب کتاب کے معاملات نمٹانے کے لیے دفتر لوٹ آیا تھا۔ ایک اور لڑکی آئی بیٹھی تھی۔ یہ لڑکی ہوٹل کے سامنے والی سڑک کے اس پار ایک دکان میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ سیلز گرل تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کی خاطر جب میرا اس دکان میں چند بار جانا ہوا تھا تو مجھے یہ لڑکی اچھی لگی تھی۔ میں نے اسے دفتر میں دیکھ کر پوچھا تھا کہ یہ یہاں کیسے آئی ہے؟ شاہد خاموش رہا تھا، دوسرے شخص نے بتایا تھا کہ اسے شاہد نے مدعو کیا تھا۔ شاہد کو روسی زبان نہ آنے کے برابر آتی تھی چنانچہ لڑکی میرے ساتھ باتیں کرنے لگی تھی۔ گفتگو کے دوران اس کی عشوہ طرازیوں کو نمایاں ہوتے دیکھ کر دوسرے نوجوان نے پنجابی میں کہا تھا،”ڈاکٹر صاحب، کس بات کا انتظار کر رہے ہیں، لڑکی رضامند ہے، لے جائیں غسل خانے میں”۔ میں نے ویسے ہی لڑکی سے کہا تھا،”اٹھو ، میری بات سنو” وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ میں اسے لے کر غسل خانے میں گھس گیا تھا۔ جب ہم خاصی دیر باہر نہیں نکلے تھے تو باہر سے شاہد نے پوچھا تھا،” آپ لوگ اندر کیا کر رہے ہیں؟”میں نے کہا کہ  میری سانس اکھڑی ہوئی تھی، یہی کہا تھا،” کیا کر رہے ہیں، وہی جو کیا جاتا ہے”۔ تھوڑی دیر میں ہم دونوں باہر نکل آئے تھے۔ شاہد کی شکل میں تشنج تھا اور دوسرا نوجوان شرارتی مسکراہٹ مسکرا رہا تھا۔ یوں اس روز ہو گئی تھیں ناں پانچوں گھی میں ۔ البتہ اس لڑکی کے بدن سے اٹھتی ہمک نے مجھے لطف نہیں لینے دیا تھا۔

یولیا کے پاس کمرے میں جانے سے پہلے میں نے جا کر ریسیپشن پر ہدایت کی تھی کہ اگر میری بیوی نینا کا فون آئے تو یہی کہنا کہ میں سو چکا ہوں، فون بالکل تھرو نہیں کرنا۔ ریسپشن پر موجود لڑکی نے حامی بھر لی تھی۔ رات کے پچھلے پہر ہم جس کمرے میں تھے، اس کے دروازے پر دستک ہوئی تھی، پہلے ہلکے ہلکے اور پھر بہت زور سے۔ یولیا نے مضطرب ہو کر پوچھا تھا، کون ہو سکتا ہے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ کون ہے۔ شروع میں میں نے سوچا تھا جو بھی ہوگا جواب نہ پا کر چلا جائے گا۔ مگر جب دروازہ بہت زور سے بجایا جانے لگا تو میں نے اٹھے بغیر پوچھا تھا کہ کون ہے؟ باہر سے ہوٹل کے محافظ نے جواب دیا تھا کہ میں ہوں۔

میں نے قمیص پہن کر بٹن بند کیے بغیر دروازہ کھولا تھا تو محافظ نے بتایا تھا کہ نیچے آپ کی بیوی آئی ہے ۔میں پریشان ہو کر اس کے ہمراہ لفٹ کی جانب چل دیا تھا۔ اس نے راستے میں بتایا تھا کہ آپ کی بیوی پولیس کی گاڑی میں آئی ہے اور ساتھ دو پولیس والے بھی ہیں۔ وہ بیچارہ سمجھ رہا تھا کہ شاید میری بیوی میرے خلاف شکایت درج کرا کے پولیس والوں کو ساتھ لائی ہے۔ جاتے جاتے میں نے قمیص کے بٹن بند کیے تو وہ اوپر نیچے لگ گئے تھے جیسے بہت جلدی میں بند کیے گئے ہوں۔ میں جانتا تھا کہ پولیس والے میری بیوی کے رفقائے کار ہیں اور پولیس کی گاڑی ان کے دفتر کی گاڑی۔ میں جب گاڑی کی پچھلی کھلی ہوئی کھڑکی میں جھانکنے کے لیے جھکا تو نینا نے پوچھا تھا، “تم کس کے ساتھ ہو؟” میں نینا پر چڑھ دوڑا تھا کہ وہ کیوں آئی ۔ کیا مجھے بدنام کرنے کی خاطر، ہوٹل کے عملے نے کس قدر بُرا تاثر لیا ہوگا، کیا یہ وہ جانتی تھی” نینا نے بس اتنا کہا تھا،” اگر تم اکیلے ہو تو اتنا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے، اپنی قمیص کے بٹن تو ٹھیک سے بند کر لو” یہ کہہ کر اس نے اپنے کولیگ ڈرائیور سے کہا تھا “چلو”۔

میں محافظ کے ساتھ نکلتے ہوئے یولیا کو بتا گیا تھا کہ میری بیوی نے چھاپہ مارا ہے۔ جب میں کمرے میں لوٹا تو یولیا ڈر کے مارے تقریباً  کانپ رہی تھی۔ میں اسے پہلے بتا چکا تھا کہ میری بیوی بہت حاسد ہے اور مارشل آرٹس بھی جانتی ہے۔ میں نے اسے تسلی دی تھی تاہم ہم دونوں کی یہ رات تو برباد ہو چکی تھی۔ یولیا الجھن اور اضطراب میں کوئی چھ بجے ہی ہوٹل سے نکل گئی تھی۔

ایک روز پہلے میں آلسو سے بھی وعدہ کر چکا تھا کہ گھر جانے سے پہلے اس کے ہاں آؤں گا تاکہ وصل کا لطف لیا جا سکے۔ مجھے وعدہ نبھانا تھا چنانچہ اس کے ہاں چلا گیا تھا۔ آلسو کے ساتھ یگانگت نے مجھے کل شام والی لڑکی کے بدن کی ناگوار ہمک اور بیوی کے رات گئے چلے آنے سے پیدا ہونے والی ناخوشگواری بھلا دی تھی، پھر آلسو کا اندام ایسا تھا کہ جیسے کھلتا ہوا پھول۔ کون نہیں جانتا کہ اندام نسواں کوئی خوشنما انگ نہیں مگر آلسو اس معاملے میں شاید یکتا تھی۔ کم از کم مجھے تو یہی لگا تھا اور اب تک لگتا ہے۔ بہر حال جب میں تلذذ سے عہدہ برآء ہو کر گھر جا رہا تھا تو شکر کر رہا تھا کہ نینا کے ساتھ رات کو رنجش ہو گئی تھی وگرنہ اب مجھ میں مزید ملوث ہونے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔

آٹھ مارچ 1999 کی رات میں نے آلسو کے گھر بسر کی تھی۔ 9 مارچ کو کوئی دس بجے میں ہوٹل کے دفتر پہنچا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب گھر جانے کو نکلنے کی سوچ رہا تھا کہ ذوالفقار دفتر میں داخل ہوا تھا۔ اس نے پوچھا تھا،”آپ نکل تو نہیں رہے؟” “بس نکلا ہی چاہتا ہوں” میں نے جواب دیا تھا۔ اس نے کہا تھا،” آدھ پون گھنٹہ مزید انتظار کر لیجیے، مجھے آپ کی ٹوپی چاییے، مجھے کہیں جانا ہے، بس گیا اور آیا سمجھیں”۔ میں نے ٹوپی ذوالفقار کو دے کر ٹانگیں سیدھی کر لی تھیں۔ ذوالفقار کوئی ایک گھنٹے بعد لوٹا تھا۔ میں نے گلہ کیا تھاکہ بہت دیر لگا دی جس پر اس نے معذرت کی تھی۔ اس سے ٹوپی لے کر میں نکل گیا تھا۔ باہر نکل کر سڑک سے ٹیکسی پکڑی تھی اور زیرزمین ریلوے کے قریبی سٹیشن پر پہنچ کر سیڑھیاں اتر کر سٹیشن میں داخل ہو گیا تھا۔ ٹرین کا انتظار کرنے کی خاطر میں جس  بنچ پر بیٹھا تھا اس پر ایک جوان اور خوبصورت لڑکی ملول سی بیٹھی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا تھا،”اتنی اداس کیوں ہیں آپ؟” یہ کہہ کر میری نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ تھوڑی دور کھڑا ایک مضبوط تن و توش والا نوجوان ہم دونوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ کہیں یہ لڑکی اس نوجوان کی گرل فرینڈ نہ ہو مزید کوئی بات نہیں کی تھی۔ اتنے میں ٹرین آ پہنچی تھی۔ میں ایک دروازے سے کمپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا تھا۔ اس روسی نوجوان نے جو کمپارٹمنٹ کے دوسرے دروازے سے داخل ہوا تھا، مجھ پر نظریں گاڑی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کے اس عمل کو درخور اعتناء نہیں جانا تھا۔ میں نے کچھ سٹیشنوں کے بعد ٹرین تبدیل کی تھی، وہ نوجوان اس ٹرین کے اسی کمپارٹمنٹ میں موجود تھا جس میں میں سوار ہوا تھا۔ میرا ماتھا ٹھنکا تھا۔ مگر جب آخری اور تیسری ٹرین تبدیل کی تو یہ نوجوان میرے بالکل سامنے آ کر بیٹھ گیا تھا اور مجھے گھورنے لگا تھا۔ میں عموماً  گھورنے والے کو خود بھی گھورنے لگ جاتا تھا مگر اس روز نجانے کیوں ڈر گیا تھا، میں نے نظریں نہیں اٹھائی تھیں۔ جب میرا مطلوبہ سٹیشن آیا تو میں نکل آیا تھا پر میں نے اس نوجوان کو اترتے نہیں دیکھا تھا۔ سٹیشن سے باہر نکل کر میں نے راہ چلتے ہوئے دو بار مڑ کر دیکھا تھا مگر وہ نوجوان دکھائی نہیں دیا تھا۔ کوئی ایک سو میٹر چلنے کے بعد میں نے سڑک پار کی تھی اور ایک پارک میں سے گذرنے والے ترچھے راستے پر ہو لیا تھا تاکہ شارٹ کٹ لوں جو میرا روزانہ کا عموم تھا۔ ترچھی راہ کے آخر پر پہنچ کر میں نے ایک بار پھر گھوم کر دیکھا تھا۔ راستے کے وسط میں ایک ادھیڑ عمر کا شرابی لڑکھڑاتا ہوا آ رہا تھا، اس کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ دن کے کوئی اڑھائی بجے تھے۔ اگرچہ ہر طرف برف کی بڑی بڑی ڈھیریاں تھیں مگر دھوپ چمک رہی تھی۔ دن پُر رونق تھا۔ ترچھی راہ سے نکل کر چند قدم چلنے کے بعد جب میں ایک بلند رہائشی عمارت کی اوٹ میں پہنچا تو چراغوں میں روشنی نہ رہی تھی۔ پھر جب میرے ہوش بجا ہوئے تو میرے ناک ، کان اور سر سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ میں نے دونوں ہتھیلیوں سے پھوٹتے  خون کو ڈھانپا تھا اور پیدل چلتا ہوا گھر پہنچا تھا۔ روس میں خون میں لت پت شخص کو دیکھ کر لوگ کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا شخص نشے میں دھت ہو کر کسی کے ساتھ لڑائی کرکے، مار کھا کر جا رہا ہوتا ہے۔مجھے بھی گھر تک کی راہ میں چند ایک افراد ملے تھے جنہوں نے کنکھیوں سے دیکھا تھا اور بس۔ میں نے اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچ کر بیل بجائی تھی۔ اندر سے نینا کی آواز آئی تھی “کون” ۔ میں نے کہا تھا “دروازہ کھولو”۔ نینا نے کہا تھا،”چابی تمہارے پاس ہے کھول لو”۔ میں نے چیخ کر کہا تھا، “کھولو دروازہ”۔ نینا نے دروازہ کھولا تھا تو میری حالت دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچی تھی۔ میں نے کہا تھا،”جلدی سے میڈیکل ایمرجنسی کو فون کرو”۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply