• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیرکو دو حصّوں میں تقسیم کر دو(جاوید چوہدری کی تجویز)-قمر رحیم خان

کشمیرکو دو حصّوں میں تقسیم کر دو(جاوید چوہدری کی تجویز)-قمر رحیم خان

پاکستان کے معروف کالم نگار، اینکر پرسن اور دانشور جناب جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ایک حالیہ کالم میں پاکستان کے معاشی حالات اور انڈو پاک تعلقات پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ـ‘‘مقبوضہ کشمیر اگر دو حصّوں میں تقسیم کر کے  معاملہ ختم کیا جا سکتا ہے توہمیں یہ کر دینا چاہیے’’۔اگر یہاں  پر ‘‘مقبوضہ کشمیر’’سے ان کی مُراد  بھارتی  مقبوضہ  کشمیر ہے تو وہ 5اگست کودو حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ پھر معاملہ ختم کیوں نہیں ہو رہا؟اور اگر وہ پوری ریاست جموں کشمیر کو مقبوضہ سمجھتے ہیں ، جو بالکل درست ہے، اور ان کی تجویز ریاست کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر دینے کے متعلق ہے ،تو میں دو واقعات بیان کرکے  آگے بڑھوں گا تاکہ ہمیں یہ سمجھ آسکے کہ دراصل کشمیر کی تقسیم ہے کیا ؟یہ دو واقعات نہیں ، دو کہانیاں ہیں۔

پہلی کہانی چنّو چاچی کی ہے، وہ ہماری پڑوسن تھیں۔ وہ پونچھ شہر، جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہے، کی رہنے والی تھیں۔ 1947ء سے کافی پہلے ان کی شادی پونچھ ضلع کے مغربی علاقے ، راولاکوٹ میں ہوئی جو اَب  آزاد کشمیر کا حصّہ ہے۔ یوں وہ 1947ء کے بعد اپنے مائیکے نہ جاسکیں۔ اس کے والدین ، بہن بھائی، عزیز رشتہ دار ، فوت ہوئے مگر وہ کسی کا آخری دیدار تک نہ کر سکیں۔ جب سیز فائر لائن پر بس سروس بحال ہوئی تو اس نے بھی اپنا نام لکھوا لیا۔مگر اپنی باری آنے سے پہلے وہ بسترِ  مرگ پر چلی گئیں۔ اس نے وصیت کی کہ جب وہ مر جائے تو اسے دریائے پونچھ کے پانی سے غسل دیا جائے۔ اس لیے کہ یہ پانی پونچھ شہر سے گزر کر آتا ہے ۔

دوسری کہانی محمد عزیز کی ہے۔ سیز فائر لائن کے ٹیٹوال سیکٹرپر سامنے ایک گاؤں ہے جو بھارت کے قبضہ میں ہے۔ یہ ایک خوبصورت جگہ ہے ۔ چند سیّاح لڑکے یہاں رُک کر سامنے کا نظارہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا ، ایک آدمی کافی دیر سے کبھی اوپر ، کبھی نیچے، اور کبھی دائیں، بائیں چل پھر رہا ہے۔ اور مسلسل سامنے گاؤں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ لڑکوں نے اس سے پوچھا، ‘‘بھائی تم کافی دیر سے ادھر اُدھر گھوم رہے ہواور مختلف جگہوں سے سامنے گاؤں کی طرف کیا دیکھ رہے ہو؟ کوئی دلچسپی کی بات ہے توہمیں بھی بتاؤ’’۔

بوڑھے محمد عزیز کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔اس نے کہا ‘‘میرا گھر سامنے گاؤں میں ہے۔ 1949ء کی ایک شام میں دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھاکہ سیز فائر ہو گیا اور یہ سیز فائر لائن میرے اور میرے گھر کے درمیان حائل ہو گئی۔ دونوں طرف فوجیں لگ گئیں اور پھر میں اپنے گھر نہیں جا سکا۔ جب میرے کسی عزیز کی شادی ہوتی ہے ، وہ دلہا یا دلہن کو لے کر باہر آتے ہیں اور میں یہاں سے دیکھ کر اشاروں میں انہیں سلام کرتا ہوں، مبارک باد دیتا ہوں۔ اسی طرح جب کوئی مر جاتا ہے تو وہ جنازہ گاہ یا قبرستان کی طرف ایسے راستے سے جاتے ہیں جہاں سے مجھے نظر آسکے۔ آج میری ماں مر گئی ہے۔ سامنے اس کا جنازہ جا رہا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں’’۔

پاکستان کے دانشور طبقہ اور جملہ قیادت کے نزدیک کشمیر ایک کمرشل پلاٹ ہے۔ جس پر انڈیا اور پاکستان کا جھگڑا چل رہاہے۔تقریباً ساٹھ سال تک پاکستان کا مطالبہ رہا کہ یہ پلاٹ اس کا ہے۔ اور بھارت کا دعویٰ یہ ہے کہ پلاٹ کے سابقہ مالک نے یہ پلاٹ اسے دے دیا تھا۔ لہٰذا پاکستان کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھارت کے علاقے ہیں جن پر پاکستان ناجائز طور پر قابض ہے۔لہٰذا وہ پاکستان سے یہ علاقے واپس لینے کا حق رکھتا ہے۔بھارت اپنے اس موقف پر ابھی تک قائم ہے۔ جبکہ پاکستان مشرف کے دور سے عملی طور پر اپنے پرانے موقف سے دستبردار ہو چکا ہے۔اب وہ چاہتا ہے کہ پلاٹ دونوں فریقوں کے قبضہ کی بنیاد پر تقسیم کر دیا جائے۔مشرف کے بعد باجوہ اور عمران نے اس سکیم کو عملی جامہ پہنا دیا ہے۔

5اگست2019ء کو اسی سکیم پر عملدرآمد کا آغاز ہوا۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کے آئین میں پندرہویں ترمیم کی کوششیں اس سمت میں اگلا قدم ہے۔

اس ایک قدم نے کشمیریوں پر یہ واضح کر دیا ہے کہ 76سالوں سے وہ پاکستانی قیادت کے اس بیانیے کو سچ سمجھتے رہے کہ ‘‘کشمیر کے ساتھ پاکستان کا کلمے کا رشتہ ہے’’۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کا زمین کا رشتہ ہے، ایک بفر زون کا رشتہ ہے، پانی کا رشتہ ہے، وسائل کا رشتہ ہے، دفاعی حکمت عملی کا رشتہ ہے، بھارت کو سبق سکھانے کا رشتہ ہے، روزی روٹی کا رشتہ ہے، پاکستان کے مستقبل کا رشتہ ہے۔

کشمیر اگر ایک خالی پلاٹ ہوتا تو اس پر انڈیا پاکستان کا جھگڑا پاکستان کے لیے زیادہ نقصان دہ نہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ خالی نہیں ہے۔ اس پر دوکروڑ لوگوں نے اپنے گھر بنا رکھے ہیں۔ بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر اپنے زیر قبضہ کشمیر کو settlers colonyبنانے پر کام شروع کر چکا ہے۔کشمیری مسلمانوں کے ساتھ آج وہی ہو رہا ہے جو امریکہ میں ریڈ انڈینز کے ساتھ یا کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ہوایا پھر فلسطین میں فلسطینیوں کے ساتھ ہوا۔اس خوفناک صورتحال میں کشمیر کو دوحصوں میں بانٹ دینے کی تجویز کے جواب میں جناب جاوید چوہدری  صاحب سے کیا شکوہ کیا جا سکتا ہے۔انہیں اپنے ملک کو ہر طرح کے خطرات سے بچانے کے لیے بولنے، لکھنے کا  حق ہے۔ لیکن کیا اس تقسیم سے پاکستان بچ جائے گا؟۔پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کا رشتہ بن پائے گا؟ تاریخ ہمیں اس کا جواب نفی میں دیتی ہے ۔کشمیر کی تقسیم بھارت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اوراس تقسیم کی دراڑیں بہت دور تک جائیں گی۔اور مزید یہ کہ پاکستان پانی کی کمی  کے سنگین  مسئلے کا شکار ہوجائے گا۔

ضرورت اس اَمر کی تھی اور ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی کی بات کی جائے۔ بھارت پاکستان کے درمیان کشمیر ایک آزاد ملک کی حیثیت میں پاکستان کے زیادہ قریب ہو گا۔ اور پاکستان بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بیٹھنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اس کے باوجود اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تقسیم ہی بہتر حل ہے تو اتنا ضرور ذہن میں رہے کہ کشمیر خالی پلاٹ نہیں ہے۔ اس پر دوکروڑ انسان بستے ہیں ۔اور یہ دوکروڑ انسان بھی خدا کی مخلوق ہیں۔ ایسے حالات میں جب وہ ہر طرف سے مایوس ہو چکے ہیں، قدرت کا قانون ان کی مدد کو آئے گا۔ جس کا اشارہ وہ اس سے قبل بھی دے چکا ہے۔ جب اگست 2019ء میں کشمیر میں لاک ڈاؤن لگااور پوری دنیا نے چُپ سادھ لی تو قدرت نے یہ لاک ڈاؤن پوری دنیا پر مسلّط کر دیا۔خدا ایک انسان کے ناحق خون کو بھی معاف نہیں کرتا۔ چہ جائیکہ ایک لاکھ انسانوں کا قتل ِ عام۔ بھارت کو اس قتلِ  عام کی سزا ضرور ملے گی۔ پاکستان کے دانشور طبقہ کو کشمیر پر کوئی رائے دیتے وقت انسانیت نہ سہی خدا کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے ۔مگر وہ کشمیر یوں کوریڈ انڈینز بنانے کے بھارتی پلان اور اس ضمن میں جاری مظالم پر بولنے کی بجائے استعماری طاقتوں کی زبان بول رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply