سفرِ بیوگی”واٹر”/فلم ریویو/احسن رسول ہاشمی

انڈین نژاد کینیڈین ہدایت کارہ دیپا مہتا کی یہ فلم ہندو بیواؤں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتی ہے، کہ نو عمری میں بیوہ ہو جانے والی عورتیں کس طرح اپنی تمام عمر قدیم رسم و رواج اور پرم پرا کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے زندگی کا ہر دن جیتے جی مر مر کر گزارتی ہیں۔ ظلم و ستم کی یہ داستان بہت طویل ہے، لیکن جب یہ ستم گری تقدیس بھری رسومات کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے تو زیادہ مضر و خطرناک ہو جاتی ہے۔

سر جیمز اس متعلق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” بولیویا کی ” ماکساس ” قوم کا یہ اعتقاد تھا کہ اگر شکاری کی بیوی اس کے غائبانہ میں اپنے پتی سے بے وفائی کرے تو اس شکاری کو سانپ یا جیگوار کاٹ کھائے گا۔ چنانچہ اگر ایسا کوئی حادثہ پیش آتا تو اس کی بیوی کو خواہ اس کا قصور ہو یا نہ ہو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ، بلکہ بسا اوقات اس کی پاداش میں وہ عورت قتل کر دی جاتی”۔

اسی طرح شکار یا جنگ کے دوران اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کی بیوہ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا اور اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا یا اس کو مار دیا جاتا۔ بورینو سے لیکر ساراوک تک اور جزیرہ کائی سے لیکر کولمبیا تک کسی نہ کسی صورت یہ اعتقاد پایا جاتا تھا۔ یہی بازگشت بعد کے سماجی ضابطوں میں سنائی دیتی ہے۔

قدیم دور کی مانند کچھ قدامت پسند ہندوؤں کا خیال ہے (ہر جگہ ایسا نہیں) کہ جس عورت کا شوہر مر گیا ہو اسے اب زندہ نہیں رہنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی روح کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ۔

ہندومت کی قدیم کتابوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کی موت کے بعد پاک دامنی کے ساتھ زندگی بسر کرے یا اس کے ساتھ چتا پر چڑھ جائے۔

منو سمرتی میں لکھا ہے کہ
ستی ہونے والی عورت اتنے سال تک جنت میں رہتی ہے جتنی شریانیں اس کے مرد کے جسم میں ہوتی ہیں (منو دھرم شاستر باب دو)

مزید بیان کیا گیا ہے کہ

کسی ذی شعور کو اپنی بیٹی ایک شخص کو ایک بار دینے کے بعد کسی دوسرے کو نہیں دینی چاہیے۔ نیک لوگ اس شخص کی مذمت کرتے آئے ہیں جو اپنی جہالت میں ، بیوہ کو کسی دوسرے کی اولاد پیدا کرنے پر تفویض کرتے ہیں۔ بیوہ کو کسی دوسرے کے ساتھ نہیں رکھا جانا چاہئے، جو لوگ ایسا کریں وہ ابدی قانون کی خلاف ورزی کریں گے۔
(منو دھرم شاستر باب نہم )

دیپا مہتا کی ایلیمنٹل ٹرائیلوجی کی یہ آخری فلم بیوہ عورتوں کے مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم کی عکسبندی سے قبل دیپا مہتا نے چار ماہ تک مختلف بیوہ گھروں ( آشرم  ) میں بیواؤں کے انٹرویوز کیے اور ان کی حالتِ زار کا بغور مشاہدہ کیا، ایک بیوہ نے انھیں بتایا کہ اسے اپنے بیٹے کی شادی کا حصہ بننے تک کی اجازت نہ دی گئی کیونکہ ہندو روایات کے مطابق شادی میں بیوہ کی شمولیت کو نازیبا سمجھا جاتا ہے۔ ایسی ہی اَن کہی ، اَن دیکھی اور ان سنی داستانوں کو بیان کرنے کیلئے دیپا مہتا نے ” واٹر ” فلم بنانے کا عزم کیا۔

فلم بنانے کا آغاز ہوا تو ہندو بنیاد پرستوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے احتجاج کیا کہ یہ فلم ہندو مخالف ہے۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران سیٹ کو آگ لگا دی اور اداکاروں کو دھمکایا گیا ، جس کے پیشِ نظر دیپا نے فلم کی پروڈکشن کو بند کر دیا اور ایک سال بعد نئی کاسٹ کے ہمراہ سری لنکا میں فلم کا آغاز کیا۔ فلم کی کہانی ، کردار نگاری، اداکاری ، کاسٹ ، لوکیشن، سکور ، موسیقی اور ہدایت کاری نہایت عمدہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو سترہ سے زائد ایوارڈز سے نوازا گیا اور اکادمی ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا تھا۔

فلم کی کہانی اور بنیادی خیال:

فلم کا آغاز تحریکِ آزادی کے پس منظر میں ایک آٹھ سالہ بچی چھویا سے ہوتا ہے، اس کے پتی کی اچانک موت کے بعد اسے آشرم بھیجنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ وہ گھر کی دہلیز پر سفید لباس زیبِ تن کیے بیٹھی ہے، اس کا سر مونڈ دیا جاتا ہے اور پتی کی موت کا کفارہ ادا کرنے کیلئے ایک خستہ حال آشرم میں بھیجا جاتا ہے۔جہاں بیوائیں گرتی ہوئی دیواروں تلے، وحشت کے سائے میں ، بنا بستر کے ، پیتل کے برتنوں میں چند دانے خوراک کے لیے ، ندامت ، مفلسی اور تنہائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انھیں دن میں ایک بار دال چاول یا روٹی کے چند ٹکڑے میسر آتے ہیں۔ چھویا ہر دم بے چین رہتی ہے اور پُر امید ہے کہ اس کی ماں اسے لے جائے گی لیکن وہ اس بات سے انجان ہے کہ اسے ایسے زندان میں محبوس کیا گیا ہے جہاں سے نکلنا امر ممنوع ہے۔ اسی بے چینی کے عالم میں اس کی ملاقات کلیانی سے ہوتی ہے جو قدر خاموش مگر ہمدرد خاتون ہے ، جلد ہی ان دونوں کی دوستی ہو جاتی ہے۔

ان دونوں کی ایک مشترکہ دوست شکنتلا ہے ، جو اپنا زیادہ تر وقت گنگا کنارے عبادت میں گزارتی ہے۔ شکنتلا ایک باشعور ، سوچنے والی عورت ہے جو بیوہ پن کے نظریہ کی بنیادوں پر سوال اٹھاتی ہے اس کی ایک وجہ اسکی ننھی سہیلی چھویا ہے جس کی اداسی و بے بسی اسے بے چین کر دیتی ہیں۔ اس آشرم پر ایک ستر سالہ عورت مدھومتی کی حکمرانی ہے ، جو کلیانی کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے تاکہ آشرم میں خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔دوسری جانب کلیانی کی ملاقات ایک امیر ہندوستانی خاندان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نارائن (جان ابراہم ) سے ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن دونوں اس بات سے واقف ہیں کہ یہ سماج ان کے رشتے کو قبول نہیں کرے گا۔ کہانی مزید دلچسپ ہوتی ہے جب شکنتلا کو پتا چلتا ہے کہ بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت دینے کے لیے ایک قانون پاس کیا گیا ہےتو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ چھویا کو اس قید سے رہا کر کے خود سے بہتر مستقبل فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔ یوں ایسے کھیل کا آغاز ہوتا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

گو کہ فلم میں آزادی سے قبل کا دور دکھایا گیا ہے لیکن جس انداز میں بیواؤں کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اعلیٰ ذات کی ہندو بیوائیں بچپن کی شادی کی وجہ سے اکثر کم عمر ہوتی ہیں، لیکن خاندان کی عزت اور وراثت کے تحفظ کے لیےانہیں شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، انہیں مجبوراً یا زور بازو ستی (خود سوزی) کی رسم ادا کرنا پڑتی یا شوہر کے گزر جانے کے بعد زندہ رہتے ہوئے محرومی، سماجی طور پر پسماندہ اور بدنامی کی زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ والدین اور عزیز و اقارب کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد وہ سنیاس کا راستہ اختیار کرتے ہوئے آشرم میں رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ سوگ کی علامت کے طور پر سفید لباس پہنتی ہے اور تا عمر اپنے شوہر کی موت کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان کیلئے مذہبی تقریبات ، تہوار ، لذیذ کھانے ، رنگ برنگے ملبوسات اور زیورات جیسی خوشگوار چیزیں ممنوع ہیں۔ مزید یہ کہ نام نہاد پاکباز ان کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں ۔

انیسویں صدی کے نصف میں کولکتہ سے تعلق رکھنے والے ایشور چندر ودیا ساگر نے بیواؤں کی دوبارہ شادی کیلئے ایک مہم کا آغاز کیا اور انگریزوں پر زور دیا کہ وہ قانون سازی کریں جس کے مطابق بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت ہو ۔اس مقصد کے حصول کیلئے ایک پٹیشن دائر کی گئی لیکن مخصوص ذہنیت کے حامل افراد نے اس کی شدید مخالفت کی اور احتجاج کیا،لیکن 1856ء میں انگریز سرکار نے ایک قانون بنایا جس کی رو سے بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت دی گئی۔ اس قانون کی منظوری کے چند ماہ بعد ہی سات دسمبر 1856ء کو ودیا ساگر نے پہلی بیوہ سے شادی کی۔ اس عمل نے لوگوں میں بیواؤں کے متعلق سوچ کو بدلنے کا آغاز کیا ، اپنی اس تحریک پر عمل کرتے ہوئے ودیا ساگر نے اپنے بیٹے نارائن چندر کی شادی ایک بیوہ سے کروائی۔ اس کے باوجود اونچی ذات کے ہندوؤں نے اس قانون کے خلاف بغاوت کر دی جس کے بعد حکومت نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔

ایک تبصرہ نگار اس صورتحال کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” 1856ء کے ایکٹ میں ہندو بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت تو دی گئی مگر اس صورت میں وہ اپنے شوہر کی وراثت سے محروم ہو جاتیں۔اس قانون کا اصل نفاذ ان بچیوں پر ہوتا تھا جو شادی ہونے کے بعد اور رخصتی سے قبل بیوہ ہو جاتی تھیں” ۔

دور حاضر میں تعلیمی شعور نے انسانی رویّوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما کی ہیں لیکن آج بھی دنیا کے بے شمار ممالک میں ایسے دیہات اور شہر موجود ہیں جہاں بیوائیں ابھی تک انھی قدیمی رسم رواج کی چکّی میں عملی طور پر پس رہی ہے۔ پاک و ہند سمیت دنیا کے تقریباً ہر ترقی پزیر معاشرے میں تا دمِ گور بیواؤں کو نفسیاتی ، سماجی اور ثقافتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی ذات ، کردار اور خیالات پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔

کہیں انھیں نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے تو کہیں جادوگری کے الزام میں نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔ سیکنڑوں برس گزر جانے کے بعد آج بھی لاکھوں بیوائیں کسی ایشور چندر کی راہ تکتی موت کی آغوش میں سو جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر اس متعلق قانون سازی کی جائے اور ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو بیواؤں کے حقوق کی حفاظت کریں۔ عوامی سطح پر اس متعلق آگاہی فراہم کی جائے اور بیواؤں سے شادی کو برا سمجھنے کی بجائے شادی کرتے وقت ان کے متعلق بھی سوچا جائے اور اپنایا جائے۔ یہ سب بھی ممکن نہ ہو تو ذاتی سطح پر اپنی سوچ کو بدلنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کے اردگرد موجود بیوائیں اپنی زندگی آرام سے بسر کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حوالہ جات
منو سمرتی ( دی لا آف منو ) مترجم راہول
ہندوستان کی تاریخ ( اصلاحات: 1856 ایکٹ)
مذاہبِ عالم کا انسائکلوپیڈیا مترجم یاسرجواد
شاخِ زریں از سر جارج جیمز فریزر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply