لالٹین/شہزاد ملک

بچپن میں جب گاؤں جانا ہوتا تھا تو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سر شام ہی رات ہوجاتی اس سے پہلے پہلے کھانا پکانے سے لے کر ہر ضروری کام نپٹا لیا جاتا شام سے لے کر صبح کی روشنی پھیلنے تک انسانی زندگی میں مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین کا بہت بڑا کردار رہا ہے گھروں کے اندر ایک دو لالٹینیں روشن ہوتیں اور گھر کے کسی اندھیرے گوشے میں جانے کے لئے اسی لالٹین کو ہاتھ میں لئے پھرنا پڑتا تھا مجھے اپنے گھر کا وہ لیمپ ابھی تک یاد ہے جو ہمارے بڑے چچا کراچی سے لے کر آئے تھے شفاف شیشے سے بنے ہوئے خوبصورت تیل والے حصے کے اوپر لمبی سی نازک شیشے کی چمنی جب اس لیمپ کو جلایا جاتا اس کے شیشے کے پیندے سے روشنی کے سات رنگ منعکس ہوتے اور کمرے میں جھلملاتا نور پھیل جاتا پڑھنے لکھنے والے لوگوں کا تو لالٹین کے ساتھ رشتہ لازم و ملزوم والا تھا گذرتے وقت کے ساتھ گاؤں جانا کم ہوتا گیا تو لالٹین بھی قصۂ پارینہ ہوگئی اور زندگی میں بجلی کے قمقمے جگمگانے لگے
صومالیہ میں جا کر پھر گیا وقت لوٹ آیا ہرگیسہ کے بجلی گھر کے جنریٹر چلنے اور بجلی پیدا کرنے کے لئے سعودی عرب کے تیل کے محتاج تھے اس غریب اور پسماندہ ملک میں جب سعودی تیل آجاتا تو بجلی بھی آجاتی مگر چوبیس گھنٹے کے لئے نہیں بلکہ دن میں دو بار دو دو گھنٹے کے لئے صبح چھ بجے سے آٹھ بجے اور شام کو چھ بجے سے آٹھ بجے تک بجلی سے کرنے والے تمام کام انہی دو وقفوں میں سمیٹنے پڑتے کبھی ایسا بھی ہوتا شام کو چھ بجے بجلی نہ آتی تو ہم بچوں سمیت پاور ہاؤس پہنچ جاتے وہاں سے معلوم ہوتا کہ سعودی عرب سے تیل آکر بربرا کی بندرگاہ سے ابھی ہرگیسہ تک نہیں پہنچا جب آئے گا تو بجلی آئے گی ہم منہ لٹکا کر واپس آجاتے اور اگر ہمارے گھر کے سامنے والے ٹرانسفارمر میں خرابی ہوتی تو پاور ہاؤس کی سیڑھی والی گاڑی کو ساتھ لے کر ہی ٹلتے کبھی سعودی تیل لیٹ ہوجاتا تو دو دو ہفتے بجلی نہ ہوتی یہ شکر تھا کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے موسم سارا سال خوشگوار رہتا نہ اے سی کی ضرورت نہ پنکھے کی حاجت کھلی کھڑکیوں سے ٹھنڈی ہوا پورے گھر میں آتی
انسان کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے یہ مخلوق جس ماحول میں بھی جائے اپنے لئے جینے کے راستے بنا لیتی ہے
بجلی کی عدم موجودگی کے دنوں میں لالٹین کی قدر پھر سے دو بالا ہو گئی ہم نے چار پانچ لالٹینیں خریدیں ایک ایک بچوں کے اور اپنے کمروں میں رکھی ایک داخلی دروازے کے ساتھ رکھی اس دیوار میں بنے طاق میں ماچس رکھی رہتی ایک بڑے سائز کی لالٹین کچن میں اور ایک گھر کی کسی مرکزی جگہ پر رکھی رہتی یوں سارے گھر میں مدھم سی روشنی اور مٹی کے تیل کی بو پھیلی رہتی اور کام چلتا رہتا ویک اینڈ کی کوئی شام ایسی نہ ہوتی جب کوئی ہمارے گھر نہ آتا یا ہم کسی کے گھر نہ جاتے اتنی ذیادہ مہمان داری میں خاطر داری کے لئے بازار سے کوئی چیز نہ ملتی چائے کے ساتھ رکھنے کو کچھ نہ کچھ گھر پر ہی بنانا پڑتا تھا عین وقت پر مہمان کو چھوڑ کر کچن میں گھسنے کی کوفت سے بچنے کے لئے میں تو گھر پر ہی خشک چیزیں بنا کر رکھتی ملک صاحب بچوں کو لے کر والی بال کھیلنے چل دیتے اور میں کچن میں رکھے بڑے لیمپ کی روشنی میں نمک پارے شکر پارے مونگ دال کے لڈو اور کوئلوں کی انگیٹھی کی ہلکی آنچ پر توے پر سینکے مختلف ذائقوں والے بسکٹوں جیسی خشک چیزیں بنا کر ڈبے بھرا کرتی یوں شام کا اداسی بھرا وقت بھی گذر جاتا اور کسی اچانک آنے والے مہمان کی تواضع کی طرف سے بے فکری بھی ہوجاتی گھر کا سب سے اندھیرا حصہ کچن ہی تھا جہاں میں بڑی لالٹین کے ساتھ ایک چھوٹی لالٹین بھی جلا کر رکھتی
جب ہم گھر سے باہر گئے ہوتے اور واپسی پر بجلی نہ ہوتی تو ہماری بڑی بیٹی گاڑی کی ہیڈ لائٹ کی روشنی میں گھر کا تالا کھول کر اندر جاتی طاق میں رکھی ماچس سے دروازے کے ساتھ رکھی لالٹین جلا کر سب کے اندر جانے کا سامان کرتی اور پھر باقی لالٹینیں جلا لی جاتیں
ہرگیسہ کے مچھر بڑے ظالم تھے سر شام دروازے کھلے رہ جاتے تو وہ بھیں بھیں کا راگ گاتے اندر گھس آتے اور پھر چائنا کی مچھر دانیوں کو خاطر میں لائے بغیر ان کے اندر پناہ لینے والوں پر ٹوٹ پڑتے پہلا سال تو جیسے تیسے ہم نے گذار لیا اگلے سال پاکستان سے مچھر مار میٹ کا پورے سال کا کوٹہ لے کر گئے یہاں بھی لالٹینوں نے ہمارا ساتھ نبھایا بجلی نہ ہوتی تو ہم اپنے اور بچوں کے کمروں کی لالٹینیں جلا کر ان کی بتی کی لو بہت مدھم کرکے لالٹین کے اوپر مچھر مار میٹ رکھ دیتے دو گھنٹے کے اندر یہ ننھی مگر ضرر رساں مخلوق بارش کی طرح مر مر کے گر جاتی اور ہم اس کی ایذا رسانی سے محفوظ ہوجاتے
پاکستان کی آبادی دن بدن بڑھتی گئی لیکن اس کی بجلی کی ضروریات کا اندازہ لگا کر بجلی کی پیداوار بڑھانے کا خیال کسی کو نہ آیا اور ملک رفتہ رفتہ اندھیروں میں ڈوبنے لگا دن کے اجالے کے بعد رات کی تاریکی کا مقابلہ کرنے کے لئے امرا نے تو یو پی ایس اور جنریٹر کا بندوبست کر لیا مگر غریب کی کٹیا میں پھر سے مٹی کے تیل کی لالٹین ہی اندھیروں کا مقابلہ کرنے لگی بہت سے علاقوں میں بجلی کی عدم موجودگی نے لالٹین کو حیات ثانیہ بخشی
بجلی کے حالات کچھ بہتر ہوئے تو لالٹین بجھ کر پھر پس منظر میں چلی گئی مگر برا ہو آئی ایم ایف کا وہ چاہتے ہی نہیں کہ ہم بھی مٹی کے تیل کی لالٹین کو بھول پائیں اور اس کی بو سے پاک فضا میں سانس لیں ان سے معاہدوں کی زنجیروں میں جکڑی ہماری حکومتوں نے بجلی کو اتنا مہنگا کردیا ہے کہ برقی قمقمے غریب کی دسترس سے دور ہوتے جارہے ہیں کب تک وہ گھر کی چیزیں بیچ کر بجلی کے بل ادا کریں گے لگتا ہے ایک بار پھر لمالٹین کے بھاگ جاگنے کو ہیں مگر اس میں جلنے والا مٹی کا تیل بھی کہیں پہنچ سے دور نہ ہوجائے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply