کیا تبلیغی نصاب میں شرک بھراہُوا ہے؟ -سلیم جاوید

آدمی، کس خاندان میں پیدا ہو؟ کس عقیدہ پراسکی اٹھان ہوئی ہو؟ یہ اسکے اختیارمیں نہیں ہوتا،کبھی سوچتا ہوں کہ تبلیغی جماعت کے بانی اگر بریلوی خانوادہ میں پروان چڑھے ہوتے توآج دیوبندی ملّاؤں کے زیرِعتاب ہوتے-

واقعہ یہ ہے کہ تبلیغی کتاب “فضائل اعمال” شاید قرآن کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مذہبی کتاب ہے- اس کتاب پراہلحدیث اوربریلوی حضرات نے ڈھونڈڈھانڈ کرحملے کئے ہیں۔بالخصوص اہلحدیث حضرات تو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کتاب میں” شرک” بھرا ہوا ہے-

توحید یا شرک کیا چیز ہے؟ یہ مذہبی لغت کی ٹرمینالوجی ہے،اورعقیدے کا ایشوہے ( جسکی ڈیفینیشن “کلمہ توحید” میں ملخص کی گئی ہے)۔مسلم سیکولرزکے دائرہ گفتگومیں صرف” دینی ایشوز” آتے ہیں نہ کہ “مذہبی عقائد” ۔اس لئے کہ عقائد اورمذہبی رسومات کبھی منطق کے پیمانے سے نہیں ماپے جاتے جبکہ “دینی ایشوز”، کبھی منطق کے خلاف نہیں ہوا کرتے، چنانچہ، اصلاً توحیدوشرک والا ایشو ہمارے سکوپ سے باہرہے۔

مزیدیہ کہ ہم مسلم سیکولرز، کسی بھی مذہب وفرقہ کے نصاب کواہمیت نہیں دیا کرتے بلکہ اس نصاب کو پڑھنے کے بعد جو”پراڈکٹ” وجود میں آتا ہے، اس پراپنا تجزیہ بنایاکرتے ہیں۔ اپنے اسی تجزیاتی فارمیٹ کے تحت، ہم “تبلیغی نصاب ” کو نہیں بلکہ ” تبلیغی حضرات” کو “توحید” کی صفت کے پیمانے پرتولتےہیں اورسچ یہ ہے کہ ہمیں تبلیغی حضرات سے زیادہ “موحد” مسلمان کسی اورپلیٹ فارم پہ نظرنہیں آئے- تبلیغی حضرات عملی زندگی میں کتنے ہی خطاکار ہوں مگرعقیدہ کے لحاظ سے بہرحال موحد ہوتے ہیں۔

عقل حیران ہے کہ جس جماعت کے ساتھ پہلا “سہ روزہ” لگانے والےکو یہ عقیدہ بتایا جاتا ہو” اللہ سے ہوتا ہے۔غیراللہ سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کہ پانی ، پیاس بجھانے میں خدا کے حکم کا محتاج ہے۔اوریہ کہ زندگی مال سے نہیں بلکہ اعمال سے بنتی ہے”- ایسی جماعت کے نصاب پر وہ لوگ “شرک” کا بہتان دھریں جن کی اپنی سجدہ گاہوں کی تعمیر، بازاروں میں نصب چندہ بکسوں کے بھتےیا سعودی ریالوں کی بھیک پرمنحصرہو۔

بہرحال، تبلیغی کتاب پر”غیردیوبندی” ملاؤں کی طرف سے عائد کئے گئے برسوں پرانے اعتراضات کو آجکل فیس بک کے ایک نئے “دانشور” نے گویا اپنی داد تحقیق کا نتیجہ بتا کرواہ واہ سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔

فرمایا “فضائل اعمال میں شرکیہ عبارات درج ہیں- مثلاًیہ لکھا ہے کہ ایک آدمی کسی میت کوغسل دے رہا تھا تو مردے نے اس آدمی کا انگوٹھا پکڑکرہنسنا شروع کردیا”۔

ممکن ہے راوی نے جھوٹ لکھا ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ غسل دینے والے کو” ہیلوسینیشن” ہوئی ہو اورصرف اسی کوہی وہ میت زندہ ہوتے محسوس ہوئی ہو۔ بہرحال خاکسار نےعرض کیا” ایک زندہ انسان کے چھونے سے مردہ انسان کا زندہ ہونا آپکےنزدیک جھوٹا واقعہ ہے، مگرایک اورکتاب میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مردہ گائے کے گوشت کا لوتھڑا، ایک انسان کی میت سے مس کیا گیا تو وہ مقتول زندہ ہوکربیٹھ گیا اورساری قوم کے سامنے اپنے قاتل کا نام بتادیا”۔

بھڑک گئے ” آپ فضائل اعمال کو بچانے کیلئے اب قرآن پاک پرحملہ کی کوشش کریں گے”۔

عرض یہ ہے کہ خاکسار، قرآن کے سوا کسی اورکتاب کوکامل نہیں سمجھتا۔ اس لئے توعرصہ قبل ایک طویل مضمون بعنوان ” فضائل اعمال پرنظرثانی کی جائے” لکھا تھا۔اس مضمون میں فقط کتاب کے فارمیٹ پرکچھ تجاویزدی گئی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

باقی یہ کہ “علمی کتابی” حضرات سے گذارش ہے کہ “مابعد الطبیعات” پراپنا موقف مہذب اندازمیں پیش کیا کریں۔ “مغیبات” کوجگت بازی کا میدان بنائیں گے تو بات بہت دور تلک جائے گی۔ پھرشایدآپ اپنا بنیادی اثاثہ بھی نہیں بچا پائیں گے۔والسلام!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply