• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایڈیٹر”ہم سب”یور ہائی نیس،ہم لکھاری ہیں ،بھکاری نہیں (حصّہ اوّل)-محمد وقاص رشید

ایڈیٹر”ہم سب”یور ہائی نیس،ہم لکھاری ہیں ،بھکاری نہیں (حصّہ اوّل)-محمد وقاص رشید

“سماجی کارکن” کون ہوتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں قارئین کی اکثریت کے ذہن میں ایک لگا بندھا ساتاثر اُبھرا ہو گا۔ وہ افراد جن کا تعلق کسی این جی او یا سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیموں سے ہوتا ہے اور وہ پیشہ ورانہ انداز میں انسانی ہمدردی کے تحت بروئے کار آتے ہیں۔
لیکن طالبعلم کا نظریہ یہ ہے کہ سماج کیونکہ انسانی کارکنی کی پیداوار ہے اس لیے اس میں بسنے والا ہر شخص سماجی کارکن ہے۔
اگر اس ذمہ داری کا احساس نہ ہو تو سماج کی شکل وہی بنتی ہے جو ہمارے سامنے ہے اور اگر اس ذمہ داری کا احساس دل و دماغ میں موجود ہو تو وہ انسانی معاشرے وجود میں آتے ہیں جہاں ہم جا بسنا چاہتے ہیں۔ جہاں بسنے والے ہمیں آکر جب بتاتے ہیں کہ وہاں ایسے ایسے ہوتا ہے تو ہماری حسرتوں کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔
طالبعلم اسی نظریے کے تحت خود کو ایک ادنی ٰسا سماجی کارکن سمجھتا ہے۔ جسکی نظریہ اپنے روحانی استاد عالی مقام فراز صاحب مرحوم کا ایک شعر ہے۔۔۔۔

شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

خود کو ہر انسانی روپ میں اسی نظریے کے تابع رکھنے کی اپنی سی کوشش میرا نصب العین ہے۔ ایک باپ ، ایک فیکٹری ملازم ، ایک ادنی سا سماجی شاعرو ادیب ہوتے ہوئے سماج کی اندھیری رات میں اپنے حصے کی شمع جلائے رکھنے کی کاوش ہی میرےلیے میرا سماجی کارکن ہونا ہے۔

اس ضمن میں ، میں سوشل میڈیا سائنس و ٹیکنالوجی کا خصوصی طور پر مشکور ہوں جس نے میرے جیسے عامیوں کو یہ موقع فراہم کیا۔ “تختی سے تخت ” والے مضمون میں لکھا تھا کہ سکول کی کاپی کے موبائل سکرین کے صفحے اور انگلی کی پور کے نوکِ قلم بننے کا ارتقاء میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا۔

میں اپنے سماجی کارکن ہونے کا فریضہ ادبی انداز میں نبھانے کے لیے پہلے صرف اپنے پیج پر “وقاص نامہ ” کے عنوان سے نظمیں ، مضامین ، افسانے ، کالمز اور آرٹیکلز لکھتا تھا ایک فیکٹری ہی کے دوست جو بہت اعلیٰ پینٹر اور لکھاری بھی ہیں انہوں نے مجھے “مکالمہ ” پر لکھنے کا مشورہ بھی دیا اور انکی انتظامیہ /ایڈیٹر صاحبہ سے متعارف بھی کروایا اور یوں میں مکالمہ پر لکھنے لگا۔ اس دوران “مکالمہ” پر افسانہ نگاری کا ایک مقابلہ منعقد کروایا گیا جس میں ناچیز نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ “مکالمہ ” کی انتظامیہ جناب انعام رانا صاحب اور محترمہ اسماء مغل  صاحبہ کا میں تب بھی شکر گزار ہوا اور از راہِ تذکرہ یہاں بھی ہوں کہ انہوں نے نا چیز کو اپنے سماجی کارکن ہونے کا فریضہ ادا کرنے کا ناصرف موقع دیا بلکہ کرتے رہنے کا اعتماد بھی عنایت کیا۔ مکالمہ پر میں اس وقت تلک کوئی سو کے قریب مضامین لکھ چکا تھا۔ ناچیز کی ایک تحریر “ستو والا بابا ” منتخب تحریروں میں کئی ماہ موجود رہی اور ویورز کی تعداد مکالمہ سے ممنونیت اور اعتماد دونوں میں اضافہ کرتی رہی۔ خدا مہربان ہے۔

اسکے بعد ایک دن اسی طرح ایک لکھاری دوست نے “ہم سب” پر لکھنے کا مشورہ دیا اور ای میل ایڈریس بھی۔ محترم وجاہت مسعود صاحب کا میں پہلے سے معترف تھا اور اب انکا قاری و ناظر ہوتے ہوئے انکی ویب سائٹ پر اپنے قلم کے ذریعے “سماجی کارکن ” بننا میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔

ہم سب کی طرف سے دیگر شرائط و ضوابط کے ساتھ ایک بنیادی شرط یہ بھی تھی کہ یہاں صرف انہی کے لیے لکھا گیا مضمون چھاپا جائے گا۔ سو میں نے اس شرط پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے یہاں بھی اپنے سفر کا آغاز کر دیا۔ اب تلک میں ہم سب پر تقریباً پچاس مضامین لکھ چکا تھا۔

اسکے بعد “ڈیلی اردو کالمز ” والوں نے طالبعلم سے ایک میل کے ذریعے رابطہ کیا اور میرے مضامین وہاں چھاپنے کی اجازت مانگی جو میں نے دے دی۔ یہ مضامین وہ وہیں سے اٹھاتے ہیں اور میں انہیں الگ سے نہیں بھیجتا۔

میں بتا چکا کہ میرے لیے یہ ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے ایک اخلاقی فریضہ رہا ہے اور اسکے پیشِ نظر کوئی مالی مفاد نہیں ہے۔
سب کچھ ہی ٹھیک چل رہا تھا میں قارئین کے ذوق اور وقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے سے مشاہدے کے تحت دونوں ویب سائیٹس “مکالمہ” اور “ہم سب ” کو الگ الگ مضمون بھیجتا رہا۔

آج سے چند دن قبل وہ ہوا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
میں نے ”ہم سب” کے ایڈیٹر عدنان خان صاحب کو ایک مضمون بھیجا اور انتظار کرنے لگا وہ مضمون دو تین دن شائع نہیں ہوا تو مجھے تھوڑا تجسس ہوا کہ ایسا تو کبھی ہوا نہیں کہ بغیر وجہ بتائے مضمون نہ چھپا ہو ۔ ہاں اس سے پہلے ایک بار ایسا ضرور ہوا کہ ایک مضمون “دیوانہ پروفیسر ” میں ، میں نے پروفیسر اجمل ساوند کی جگہ ساند لکھ دیا تو ایڈیٹر صاحب نے استفسار کیا کہ یہ “ساند ہے یا ساوند “؟ میں نے تحقیق کر کے معذرت کے ساتھ ای میل کا جواب دیا کہ یہ ساوند ہی ہے۔ میں نے پہلے دو تین جگہوں پر ساند پڑھا تھا لیکن معذرت درستگی کر دی سر۔

اب میں انتظار کرنے لگا۔ جب وہ مضمون پھر بھی نہیں چھپا تو میں نے دو دن بعد پوچھا تو ایڈیٹر صاحب نے درشتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا “جب نام ہی غلط تھا تو باقی مضمون میں بھلا کیا ہو گا اس لیے نہیں چھپا “۔ اچھا میرے لیے یہ رویہ افسوسناک تھا کیونکہ میں نے اس مضمون کو روشنائی سے نہیں خون کے آنسوؤں سے لکھا تھا لیکن بہرحال میرے لیے یہ جذبات و احساسات کا مسئلہ تھا اور انکے لیے شاید محض ایک پیشہ ورانہ معاملہ۔میں خاموش ہو گیا۔

پھر  عید آ گئی اور مصروفیات میں وہ مضمون بھی زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔ چند دن کے بعد پھر میں نے ایک مضمون بھیجا مضمون پھر چھپا نہیں۔ اور کوئی جواب بھی نہیں آیا۔ جب میں نے اس بارے میں پوچھا تو ایڈیٹر صاحب نے جو جواب دیا اور اسکے بعد جواب در جواب کا سلسلہ شروع ہوا اس سے کچھ دن تو میں شدید تاسف کے عالم میں رہا۔ مجھے شدید بے وقعتی اور شرمندگی کا سامنا رہا مگر پھر مجھے میرے ماضی نے آکر کان میں سرگوشی کی کہ چل اٹھ مسافر راہِ وفا میں ایساموڑ نہ پہلا ہے نہ آخری۔۔۔
میں نے کئی دن انتظار کیا کہ شاید ایڈیٹر صاحب کو اپنے رویے کا احساس ہو اور وہ رابطہ کریں تا کہ مجھے یہ کچھ نہ لکھنا پڑے لیکن کہاں صاحب۔۔۔
اس مضمون کے اگلے حصے میں، میں ان ای میلز کے ساتھ حاضر ہو۔ گا اور “ہم سب” سے انتہائی عزت و احترام سے سوال کروں گا کہ “ہم سب” کی ویب سائیٹ پر انکا سلوگن “انسان دوستی اور رواداری میں ہم سب ساتھ چلیں گے ” اس سر زمین پر باقی نعروں کی طرح عملاً دکھائی کیوں نہیں دیتا ؟؟
نئے لکھنے والوں کو عزت دلوانے کے سفر میں میرے ساتھ رہیے گا۔

نوٹ :“مضمون آزادی اظہار رائے کے حق کے تحت شائع کیا جا رہا ہے۔ ہم سب انتظامیہ اگر جواب دینا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply