ہائیڈل برگ میں ٹیگور پر سیمینارکی ایک یاد/ناصر عباس نیّر

“ایک انتہائی خوشحال، برہمن گھرانے میں پیدا ہونے والے رابندر ناتھ ٹھاکر کی مغرب میں شہرت ایک بے حد دلچسپ معاملہ ہے۔
ٹیگور نے لندن کے دو سفر کیے۔ ایک سترہ برس کی عمر میں اور دوسرا جب وہ اکیاون برس کے تھے۔ جب وہ نوجوان تھے، بیرسٹری کی تعلیم کے لیے لندن گئے۔ ایک سال بعد واپس آ گئے۔ بیرسٹری پر دو حرف بھیجے اور لندن کے موسم کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
واپس آ کر لکھنے کو اپنا کیرئیر بنانے کا فیصلہ کیا۔ شاعری لکھی، افسانے لکھے، ناول، ڈرامے لکھے۔ اکیاون برس کی عمر تک وہ بنگالی زبان کے ایک ممتاز شاعر و ادیب کے طور پر شہرت حاصل کر چکے تھے، مگر شہرت کا دائرہ فقط بنگالی زبان تک محدود تھا۔
وہ برہمن تھے مگر عام بول چال کی بنگالی میں لکھا۔ بنگالیوں میں عزت و احترام حاصل کرنے کے لیے یہ کافی تھا۔ ہندوستان کے ذات پات کے بندھنوں میں اسیر سماج میں ایک ٹھاکر، ایک برہمن، عام آدمی کی بھاشا استعمال کرے اور اس میں ایسی کیفیات ظاہر کرے، جو ذرے کی طرح حقیر ہستی کو ماورا سے وابستہ کرتی ہوں، اور جس میں مقامی موسیقی سے لے کر مقامی صبح و شام، مقامی منظر ہوں تو ایسی شاعری سنتے ہی عام آدمی بچھ بچھ نہ جائے تو کیا کرے۔

ٹیگور نے لندن کا دوسرا سفر اپنے بیٹے کے ہمراہ کیا۔ لمبا بحری سفر، کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ ٹیگور نے بطور شاعر”کچھ نہ کچھ” کر دکھانے کا تہیہ کیا۔ اندر کہیں پہلے سفر کی ناکامی کا کوئی داغ ضرورتھا، اپنی ہی نظموں کے انگریزی تراجم شروع کیے، لندن پہنچے تو نوٹ بک پر کافی تعداد میں نظمیں واجبی سی انگریزی میں منتقل ہو چکی تھیں۔
ایک چھوٹا سا حادثہ ہوا۔ اگر اس حادثے کے بعد واقعات کچھ دوسری طرح رونما ہوتے تو ٹیگور کو نوبل پرائز ملتا نہ مغرب میں غیر معمولی شہرت ملتی۔ سامانِ سفر سمیٹنے کی جلدی میں اس کا بیٹا وہ بریف کیس اٹھانا بھول گیا، جس میں وہ نوٹ بک بھی تھی۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹھاکر رابندر ناتھ پر کیا گزری ہو گی، اگر کوئی نیک آدمی ان تک وہ بریف کیس نہ پہنچاتا تو انڈیا ایسوسی ایشن کے روزنتھائن اس شام کا اہتمام نہ کر سکتے، جس میں ٹیگور نے پہلی دفعہ اپنی نظموں کے انگریزی تراجم سنائے۔ یہ اتفاق تھا یا کہ سوچا سمجھا پروگرام کہ روز نتھائن نے اس شام ڈبلیو بی ییٹس اور ایذرا پاؤنڈ کو بھی مدعو کیا تھا۔

یہ 1912ء کی بہار کے دن تھے۔ ییٹس اور پاؤنڈ دونوں ٹیگور کی نظموں سے بے حد متاثر ہوئے۔ ییٹس اور ٹامس سٹرج مُور( جو لندن کی رائل سوسائٹی آف لٹریچر کے رکن تھے) نے ٹیگور کی نظموں کی زبان کی اصلاح پر خاصا کام کیا۔ ییٹس اور پونڈ نے سریت و مقامیت و غنائیت میں ڈوبی نظموں سے جو انوکھی مسرت محسوس کی، اس میں باقی مغربی دنیا کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔

پونڈ نے امریکہ میں اور ییٹس نے یورپ میں ٹیگور کی ساحرانہ شاعری کو پھیلانے کے لیےکوشش شروع کی۔ پونڈ نے امریکی رسالے poetry میں گیتان جلی کی کئی نظمیں شایع کروائیں اور ییٹس نے ان نظموں کا تعارف لکھا، جنہیں روز نتھائن نے جولائی 1912ء میں خود چھاپ دیا۔ یہ سب چند مہینوں میں ہوا۔ لندن میں ٹیگور کو بے حد پزیرائی ملی۔ اگلے برس میکملن نے گیتان جلی شائع کی اور ایک ہی برس میں اس کے بیس ایڈیشن نکلے۔ اور اسی برس ٹیگور کو نوبل انعام مل گیا۔ وہ آیا اور اس نے فتح کر لیا۔ اس کلیشے کا اگر صحیح اطلاق ہو سکتا ہے تو ٹیگور پر۔ ایک برس میں شہرت کی ان بلندیوں پر پہنچنا، جس کے آگے کوئی اور منزل نہ ہو، ادب کی تاریخ کا یہ ایک معجزہ تھا، اور ایک المیے کی ابتدا بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کی ان تقریبات میں اس پہلو پر بحث نہیں کی گئی کہ ٹیگور کی نظموں کے انگریزی تراجم نے اسے مغرب ہی میں نہیں، ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں بھی شہرت دلائی، اس نازک نکتے پر بھی یہاں کے مقررین کی توجہ نہیں گئی کہ کس طرح ایک کولونیل ایمپائر اپنی زبان کو ایک جادوئی صلاحیت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس میں کچھ کلام نہیں کہ ٹیگور کی شاعری میں کچھ بنگال کا جادو تھا، اور کچھ انگریزی کا جادو، اور کچھ نوبیل انعام کا سحر کہ وہ ہندوستان بھر میں محض ایک آدھ سال میں شہرت کی بلندیوں کو پہنچ گیا۔ نیاز فتح پوری نے 1914ء میں گیتان جلی کا اردو ترجمہ، انگریزی سے کیا، اور اردو کی رومانوی تحریک پر گیتان جلی کا اثر پڑا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply