• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان فسطائیت کے کس مرحلے پر ہے؟-ڈاکٹر ہادی حسینی

پاکستان فسطائیت کے کس مرحلے پر ہے؟-ڈاکٹر ہادی حسینی

Fascism جسے اردو میں فسطائیت کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسی تحریک ہے، جس میں ایک رژیم یا شخص کسی عوامی نعرے کے ساتھ ایک ملک اور قوم پر مسلط ہو جاتا ہے۔ فسطائیت وہ نظام ہے، جس میں جمہوریت کے برعکس عوام کو بنیادی حقوق، شفاف انتخابات اور سیاسی آزادیاں حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں میسولینی، ہٹلر، فرانسسکو فرانکو، صدام حسین، کرنل قذافی، حسنی مبارک، علی عبد اللہ صالح سبھی فسطائیت کی مثالیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی خلا، ملکی حالات سے استفادہ کیا اور مختلف نعروں کے ذریعے بر سر اقتدار آئے۔ فسطائیت اور آمریت میں بنیادی فرق عوامی support ہے۔ فسطائی رژیم عوام سے اپنی طاقت حاصل کرتا ہے جبکہ آمر کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر آمر فسطائیت کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے۔ فسطائیت کی پانچ stages ہیں:
گمنامی سے نکل کر نام پیدا کرنا
ملک میں سیاسی سٹیک ہولڈر بننا
دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر طاقت حاصل کرنا
طاقت کو اداروں پر تسلط کے لیے استعمال کرنا

فسطائی اصلاحات کا نفاذ
جرمنی میں جنگ عظیم اول کے بعد ایک سیاسی خلا پیدا ہوچکا تھا، ایسے میں ہٹلر گمنانی سے منظر عام پر آیا، ہٹلر نے جنگ عظیم کے معاہدہ ورسیلس سے نکلنے اور قومی وقار کو بحال کرنے کا وعدہ کیا۔ جسے عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی، یوں جرمنی میں ایک فسطائی رژیم کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں فسطائیت کب سے قائم ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں اپنی ہسٹری کو دیکھنا ہوگا۔ پاکستانی فسطائیت ایک شخص نہیں بلکہ ایک رژیم ہے، جس میں افراد بدلتے ہیں، کردار نہیں بدلتا۔ ہمارے ملک میں اقتدار میں رہنے کے لیے ہر آمر نے فسطائیت کا سہارا لیا، لیکن ان سے ہمیشہ ایک غلطی ہوئی کہ انھوں نے ایسا جمہوریت کا خاتمہ کرکے کیا، جس کا خمیازہ بیرونی امداد کے خاتمے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

جنرل ایوب خان نے فسطائیت یعنی اپنے اقدامات کے لیے عوامی support حاصل کرنے کے لیے مذہب، ذات حتی کہ صنف کو استعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے فسطائیت کے لیے مذہب کا بھرپور استعمال کیا۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر ضیاء الحق نے عوام میں ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملایا اور یوں اپنے رژیم کو آگے بڑھایا۔ افغان جہاد کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں پیدا ہونے والی انتہاء پسندی اور فرقہ واریت اسی رژیم کے تحائف ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے فسطائیت کے لیے قومیت کا نعرہ استعمال کیا۔ سب سے پہلے پاکستان کہہ کر اس نے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں اسی قومیت کے نعرے کی بنیاد پر مختلف قومیتوں اور مسلکوں پر کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا۔

پرویز مشرف کی فسطائیت کا پہلا نزلہ پختون قوم پر گرا۔ امریکی جنگ میں شامل ہو کر پرویز مشرف نے پاکستان کے ان پختونوں پر بمباری کی، جنہیں ضیاء دور میں ان کی مہمان نوازی کی وجہ سے سراہا جاتا تھا۔ ان پختونوں نے افغان جہاد کے لیے آنے والے مسلمان مجاہدوں کے لیے اپنا تن من دن پیش کر دیا۔ یہ پٹھان “سب سے پہلے پاکستان” کے نعرے میں فٹ نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی امریکہ کو اب ان کی مہمان نوازی کی ضرورت تھی۔ متعدد برس پختونوں کا پورا خطہ پرویز فسطائیت کا شکار رہا، اس کا ردعمل بھی آیا، جسے پورے پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ اس جنگ میں ہم نے تقریباً اسّی ہزار پاکستانیوں کی قربانی دی اور مالی اعتبار سے تقریباً 1.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔

“سب سے پہلے پاکستان” کا اگلا شکار بلوچ تھے، پرویز مشرف نے ہی بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کو ان کی سیاسی حیثیت اور مقام کے باوجود قتل کروا دیا، جس نے بلوچ قوم میں انتقام کے احساس کو جنم دیا۔ بلوچ قوم آج بھی رژیم کی فسطائیت سے مقابلہ کر رہی ہے۔ ہزاروں بلوچ نوجوان غائب کیے جا چکے ہیں، سینکڑوں جان کی بازی ہار چکے ہیں اور دسیوں رژیم کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ “سب سے پہلے پاکستان” رژیم کا ایک اور شکار مسلکی گروہ بھی تھے۔ لال مسجد پر حملہ اور پھر اہلسنت جوانوں کا اغواء، اسی طرح پاکستان بھر سے شیعہ جوانوں کی گمشدگی اور ان پر تشدد پاکستان کھپے کا ہی تسلسل ہے۔

پرویز مشرف معیشت چلانے اور عالمی امداد کے حصول کے لیے مزید برسر اقتدار نہ رہ سکتا تھا۔ اگرچہ اس نے بہت سی چالیں چلیں، تاہم اس کی کوئی چال کامیاب نہ ہوئی۔ نہ ریفرنڈم کام آیا، نہ سول راج۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دوبارہ جمہوریت کی جانب جانا پڑا۔ پرویز مشرف نے ملک میں موجود سیاسی دھڑوں کو این آر او دیا اور یوں ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ عوام نے سمجھا کہ شاید پاکستان میں جمہوریت آگئی، تاہم یہ فسطائیت کا تیسرا مرحلہ تھا، یعنی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر طاقت حاصل کرنا۔ بے نظیر بھٹو چونکہ اس راہ میں ایک رکاوٹ بنتی رہی، لہذا اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ میاں نواز شریف بھی چونکہ مکمل تعمیل نہیں کرتا تھا، لہذا دو تہائی اکثریت کے باوجود اسے نہ رہنے دیا گیا۔

پاکستان کے فسطائی رژیم کا اگلا مہرہ عمران خان تھا، لیکن تین برس میں ہی یہ مہرہ تعاون کرنے سے گریزاں ہوگیا۔ آج عمران خان ملک کے فسطائی رژیم کے خلاف برسر پیکار ہے۔ فسطائی رژیم کے پرانے مہرے یعنی دائیں بازو کی جماعتیں یعنی پی ڈی ایم اس وقت اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں اور آخری مہرہ پاکستان میں بری طرح پٹ رہا ہے۔ فسطائیت کا چوتھا مرحلہ یعنی اداروں پر تسلط کے لیے طاقت کا استعمال پاکستان میں کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ عدلیہ، پارلیمان، میڈیا، الیکشن کمیشن، مذہبی ادارے غرضیکہ طاقت کا ہر ستون اس وقت فسطائیت کی لونڈی بنا ہوا، اس کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، تاہم فقط اس چینل سے جو فسطائی رژیم نے دے رکھا ہے۔

اگر آپ فسطائی رژیم کے حامی ہیں تو آپ ریڈ زون میں مظاہرہ کرسکتے ہیں، اگر مخالف ہیں تو ریڈزون موٹروے تک ہے، لاہور کی سڑکیں بھی ریڈ زون ہیں، پورے ملک میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ اگر آپ فسطائی رژیم کے حامی ہیں تو آپ کا چینل چل سکتا ہے، اسے ایڈ بھی ملیں گے، لیکن اس کے برعکس نہیں۔ اگر آف فسطائی رژیم کے حامی ہیں تو آپ کے تمام کیسز معاف ہوسکتے ہیں، لیکن اگر معاملہ برعکس ہے تو اگلے صوبے کی پولیس آپ کو پکڑنے کے لیے تیار ہے۔ اگر آپ فسطائی رژیم کے حامی ہیں تو آپ انسان بھی ہیں، آپ کے حقوق بھی ہیں اور آپ کی عزت و ناموس بھی، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کے تمام بنیادی انسانی حقوق سلب ہیں۔ آپ خواہ عورت ہیں یا مرد، بچے ہیں یا بوڑھے، آپ کو شہری آزادیاں حاصل نہیں۔

میرے عزیز ہم وطنو! ہمیں جلد یا بدیر اس فسطائیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ کل بنگالیوں کی باری تھی، پھر پختون زیر عتاب آئے، پھر بلوچ، شیعہ اور سنی نوجوان غائب ہوئے، اب معاملہ پنجاب اور سندھ تک پہنچ چکا ہے۔ یہ رژیم اپنے اقتدار کی ہوس میں کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ آپ کی شہری آزادیاں، آپ کے حقوق سب اس کے مرہون منت ہوں گے۔ ہم جو ملک سے باہر رہتے ہیں، آپ کو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں نام کی بھی جمہوریت نہیں ہے، اس فسطائیت کے ہوتے ہوئے عدل و انصاف کی حکمرانی، معاشی ترقی سب ایک خواب ہے۔ بیرون ملک رہنے کے باوجود ہمارے دل آپ کے ہمراہ دھڑکتے ہیں۔

وطن کی محبت، فلاح اور ترقی کا جتنا آپ کو خیال ہے، اس سے کہیں زیادہ یہ تڑپ ہمارے اندر موجود ہے، کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے ان معاشروں کو دیکھتے ہیں، جہاں جمہوریت ہے، جہاں فسطائیت نہیں ہے۔ جہاں انسانوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ ہم نے یقیناً انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی تھی، تاہم فسطائیت سے نہ بچ سکے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنے نسلی، علاقائی، قومی اور مسلکی اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بن کر فسطائیت کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کریں، ورنہ بنگلہ دیش کا قیام فقط ایک دفعہ کا قصہ نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply