ہم انہیں نہیں جانتے، یہ کون ہیں؟ /امتیاز احمد

انہوں نے مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو استعمال کیا۔ وہاں جماعت اسلامی کی ’البدر‘ نامی ذیلی تنظیم نے دل و جان سے ان کو حمایت فراہم کی لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش الگ ہو گیا۔

بنگلہ دیش نے تقریباً تیرہ برس قبل ’خصوصی عدالتیں‘ لگائیں، ماضی میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو نسل کُشی، قتل، تشدد اور ریپ کا مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسیاں دینا شروع کر دیں۔
جماعت اسلامی کے ان رہنماؤں کو جب تختہ دار پر لٹکایا جا رہا تھا، تب راولپنڈی نے ایسی چُپ سادھی کہ ایک تعزیتی بیان تک جاری نہ ہوا۔ وہ مُڑ کے ان کی طرف دیکھتے رہے اور انہوں نے اپنے سابقہ دوستوں کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ بلکہ خاموش پیغام یہی تھا کہ ہم انہیں نہیں جانتے، یہ کون ہیں؟

جب پوچھا گیا کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجہ کیا تھی تو انہوں نے پانچوں اُنگلیاں دوسروں کی طرف کر دیں، وردی کا کلف برقرار رہا، کوئی سلوٹ نہیں پڑی۔

پھر انہوں نے کراچی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ٹھان لی، وہاں تقسیم اور مقابلے کی سیاست کی بنیاد رکھ دی گئی۔ سب نے دیکھا کہ کراچی کی روشنیاں کیسے ایک ایک کر کے بجھتی گئیں۔ پھر جن کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا تھا، انہی کی طرف انگلیاں کر کے کہا گیا کہ یہ غدار ہیں۔

لوگوں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا تو اِدھر سے یہی پیغام تھا کہ ہم انہیں نہیں جانتے، یہ کون ہیں؟ وردی کا کلف برقرار رہا کوئی سلوٹ نہیں پڑی۔

پھر مغربی سرحد پر افغان جہاد کا بول بالا ہوا۔ افغان دھڑوں اور طالبان کو کمک پہنچنے لگی۔ میٹرک سے فارغ ہونے والے پاکستانی طالب علموں کو شمال مغربی علاقوں میں ٹریننگ ملنے لگی، طالبان کو اپنے ہر مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
لال مسجد کی بنیاد خفیہ ادارے کے ہیڈ کوارٹر سے چند سو میٹر کے فاصلے پر رکھی گئی۔ امریکہ آیا تو پھر پرانے دستوں نے آنکھیں بدلتے دیر نہ لگائی اور طالبان کے سفیر تک کو پکڑ کے اُن کے حوالے کر دیا گیا۔ طالبان نوجوانوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو خاموش پیغام یہی تھا کہ ہم انہیں نہیں جانتے، یہ کون ہیں؟

ماضی کی پالیسیاں اپنے گلے پڑنے لگیں تو، جن نوجوانوں کو تربیت دی تھی، نظریہ فراہم کیا تھا، مذہب کی گولیاں کھلائی تھیں، انہی کو پھانسیاں دی جانے لگیں۔ جن کو پالا پوسا گیا تھا، انہیں ہی موت کے گھاٹ اتار کر ذرا برابر شرمندگی نہ ہوئی۔ پانچوں انگلیاں پھر دوسروں کی طرف تھیں کہ قصور ان کا ہے۔ وردی پرکلف لگا رہا کوئی سلوٹ نہیں پڑی۔

اس دوران اندرون ملک بھی سیاسی انجینئرنگ مسلسل چلتی رہی۔ نواز شریف سے لے کر ق لیگ تک اور ق لیگ سے لے کر عمران خان تک کئی ’بُت‘ تشکیل دیے گئے۔

پھر سات آٹھ برس قبل کلف لگی وردی نے آج کے مایوس نوجوان کو کہا کہ صرف عمران خان ہی تمہارا ’نجات دہندہ‘ ہے۔ نیا سفر شروع ہوا، سبھی ایک پیج پر تھے لیکن بات بن نہ سکی۔ نہیں سننا تو گورا نہیں تھا صاحب جی کو اور پھر اختلافات شروع ہو گئے۔ جب آج کے نوجوان کے ’نجات دہندہ‘ کو گرفتار کیا گیا تو آپ کے لیے ففتھ جنریشن وار لڑنے والے مشتعل ہو گئے۔

یہ وہی نوجوان ہیں، جو آج سے چار برس پہلے آپ کے لیے سوشل میڈیا پر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ اب یہ آپ کی طرف مڑ کر دیکھ رہے ہیں اور خاموش پیغام ایک مرتبہ پھر یہی ہے، ہم انہیں نہیں جانتے، یہ کون ہیں؟

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے نوجوانوں کی طرح، کراچی کے اسٹوڈنٹس کی طرح اور طالبان کی صفوں میں شامل ہونے والے کچی عمر کے لڑکوں کی طرح یہ آج کے نوجوان بھی آپ کی پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے آپ کی طرف مڑ کر دیکھا ہے تو آپ نے حسب عادت انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔

حالیہ چند برسوں کے دوران سفر ریاست مدینہ سے ہوتا ہوا ’لبیک، لبیک یا رسول اللہ‘ تک پہنچا اور دو دن پہلے اسلام آباد کی فضائیں ’لبیک الھم لبیک‘ سے گونج اٹھیں۔ اس ساری مینیوفیکچرنگ کے دوران وردی پر کلف لگی رہی اور بظاہر کوئی سلوٹ نہیں آئی۔ آج پھر پانچوں کی پانچوں انگلیاں دوسروں کی جانب ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناب والا اگر آپ پاکستان کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک مرتبہ ایک انگلی اپنی طرف بھی کیجیے۔ یادداشت پر زور دیجیے، اصل میں آپ جانتے ہیں کہ یہ نوجوان کون ہیں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply