معاشرہ میں تبدیلی کا سفر – متفرق خیالات/شاہد محمود ایڈووکیٹ

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
(مولانا ظفر علی خان)

اللہ کریم کا فرمان ہے: یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لاَیَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ، إِلَی اللَّہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا، فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ (سورۂ مائدہ: ۱۰۵)

’’اے ایمان والو! تم اپنی خبر لو (اپنے آپ کو درست کرنے کی فکر کرو) اگر تم راہ راست پر آ گئے توجو لوگ گمراہی کے راستے پر جا رہے ہیں وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، وہ تم کو اس وقت بتائے گا کہ دنیا میں کیا عمل کرتے تھے‘‘۔

افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے، اگر ہر فرد اور ہر شخص کو اپنی اصلاح کی فکر ہو جائے تو سارا معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا، لیکن اگر ہر شخص دوسرے کی فکر کرتا رہے اور اپنے کو چھوڑتا رہے تو سارا معاشرہ خراب ہی رہے گا۔

جو اسلامی تعلیمات فرد سے متعلق ہیں وہ تعلیمات انسان کو اس بات پر تیار کرتی ہیں کہ اس کی اجتماعی جد وجہد صاف ستھری ہو، فرد سے متعلق تعلیمات جس میں عبادات، اخلاقیات، قلبی کیفیات، سب چیزیں داخل ہیں، اگر انسان ان پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہو اور ان تعلیمات میں اس کی تربیت ناقص ہو،پھر وہ اصلاح معاشرہ کا علم لے کر کھڑا ہو جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی کوششیں بار آور نہیں ہوتیں، اگر میں ذاتی طور پر اپنے اخلاق، کردار اور سیرت کے اعتبار سے اچھا انسان نہیں ہوں اور اس کے باوجود میں اصلاح معاشرہ کا علم لے کر کھڑا ہو جاؤں اور لوگوں کو دعوت دوں کہ اپنی اصلاح کرو تو اس صورت میں میری بات میں کوئی وزن اور تاثیر نہیں ہو گی۔

سب سے آسان کام اس بگڑے ہوئے معاشرے میں یہ ہے کہ دوسروں پر آدمی اعتراض کر دے، دوسرے کے عیب بیان کر دے، لیکن کبھی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر یہ دیکھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ خود میں کتنا بگڑ گیا ہوں، خود میرے حالات کتنے خراب ہیں، خود میرا طرزِ عمل کتنا غلط ہے، خود میری زندگی، معاملات اور میرے گھر میں دین کتنا قائم ہے اور کتنی دین داری ہے، بس دوسروں کی تنقید اور عیب جوئی جاری ہے۔

جو شخص دوسرے کو وعظ و نصیحت کرے اس کو چاہیے کہ وہ اس نصیحت پر خود عمل کرے اور اس کو اپنے اوپر لاگو کرے، اللہ تعالٰی کا فرمان ہے: أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ۔ (البقرۃ: ۴۴)

یعنی کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور بھولتے ہو اپنے آپ کو ، یعنی خود عمل نہیں کرتے۔

صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا حال یہ تھا کہ ان کو ہر وقت اور ہر لمحہ یہ فکر رہتی تھی کہ میرا کوئی فعل، کوئی عمل اور کوئی ادا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف تو نہیں ہے اور جب یہ فکر لگی ہوئی ہے تو اب جب وہ دوسرے سے کوئی اصلاح کی بات کہتے ہیں تو وہ بات دل پر اثر انداز ہوتی ہے، اس سے زندگیاں بدلتی ہیں، اس سے انقلاب آتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسوہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پہ عمل پیرا ہو کے انقلاب برپا کر کے دنیا کو دکھا بھی دیا۔

قرآن و اسوہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہر ایک کے لئے ہے اور سبھی کی سعادت و کامرانی کا پیمانہ قرآن و اسوہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی ہے۔ اور اسی پیروی کی وجہ سے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نصف صدی کے اندر، اس وقت کی تمام بڑی سلطنتوں پر غلبہ حاصل کر لیا اور ہم بھی جب تک قرآن و اسوہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں ہیں تو آپس میں اتحاد و یگانگت سے نہ صرف اپنے ملک کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں بلکہ دشمنان پاکستان و اسلام پہ بھی غلبہ حاصل کرتے رہیں گے، اور اگر خدا ناخواستہ دشمنان اسلام نے ہم کو قرآن و اسوہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا کر دیا تو ہم کو بیٹھ کر دیکھنا چاہئے کہ ہم کس طرح ذلت اور دوسروں کی غلامی کی خفت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پہ یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ہمارا اتحاد، ہماری قومی طاقت و حمیت و خود مختاری اور آزادی قرآن کریم اور اسوہ رسول اکرم (ﷺ) کی پیروی میں ہے، ہم سب قرآن اور رسول اکرم (ﷺ) کے پیرو ہیں اور سب کے سب آپس میں بھائی بھائی، سب کے سب ایک راہ پر، ایک ہی رخ پر، ایک ہی دین اور ایک ہی قرآن کے پیرو ہیں، اور تمام تفرقہ انگیزیاں ان شاءاللہ ہم لوگ قرآن و سنت کی پیروی سے ختم کردیں گے اور ان شاءاللہ اپنی صفوں میں کسی کو رخنہ ڈالنے کی ہرگز اجازت نہ دینگے۔

اب بات مختصر کرتے ہوئے اقبال کے اشعار کی طرف بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں؛

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

اگر مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن حکیم پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

منزلِ مقصودِ قرآں دیگر است
رسم و آئین مسلماں دیگر است

قرآن پاک کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے مگر آج کل کے مسلمان کے طور طریقے اور اُصولِ حیات مختلف ہیں۔

حق اگر از پیش ما برداردش
پیشِ قومے دیگرے بگزاردش

یہ قرآن حکیم کی اس آیت کی ترجمانی ہے :وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِ لْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۝۰ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۝۳۸ۧ ( محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔

اب ہم۔نے کامیابی کی طرف جانا ہے یا ناکامی کی طرف ۔۔۔۔۔۔ دونوں راستے ہمارے سامنے ہیں۔

اقبال رح کی روح سے معزرت کے ساتھ؛
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے پاکستان والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

اور مثبت نوٹ پہ الطاف حسین حالی رح کا “پیام عمل” میاد آ گیا؛

گر قوم کی خدمت کرتا ہے
احسان تو کس پر دھرتا ہے

کیوں غیروں کا دم بھرتا ہے
کیوں خوف کے مارے مرتا ہے

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

جو عمریں مفت گنوائے گا
وہ آخر کو پچھتائے گا

کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا

تو کب تک دیر لگائے گا
یہ وقت بھی آخر جائے گا

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

جو موقع پا کر کھوئے گا
وہ اشکوں سے منہ دھوئے گا

جو سوئے گا وہ روئے گا
اور کاٹے گا جو بوئے گا

تو غافل کب تک سوئے گا
جو ہونا ہوگا ہوئے گا

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

یہ دنیا آخر فانی ہے
اور جان بھی اک دن جانی ہے

پھر تجھ کو کیوں حیرانی ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے

جب ہمت کی جولانی ہے
تو پتھر بھی پھر پانی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے!

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply