ٹرسٹ اور القادر ٹرسٹ/پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ہارون بخاری

ٹرسٹ کے دو معنی ہیں، ایک لغوی اور ایک قانونی۔ لغوی معنی کے لحاظ سے  ٹرسٹ کا معنی “اعتماد” ہے اور قانونی لحاظ سے “ٹرسٹ” ایک ڈھیلا ڈھالا سا خیراتی ادارہ ہوتا ہے جس میں اثاثوں کی ملکیت ٹرسٹی (ادارے کے سربراہ) کے پاس ہوتی ہے۔ ٹرسٹ قائم کر کے وراثت ٹیکس، گفٹ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور ٹرانسفر ٹیکس سے بچا جا سکتا ہے۔ انکم ٹیکس سے پاک آمدنی اور اثاثے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ٹرسٹ کو تجارتی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے اثاثوں کو نسل در نسل منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔ ٹرسٹ کے اثاثے حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور ان کا عوامی ریکارڈ پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، ٹرسٹ کے معاملات پوری رازداری سے ٹرسٹی کی منشاء کے مطابق طے پا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس فاؤنڈیشن ایک زیادہ قانونی ادارہ ہوتا ہے، اس میں فرد کی بجائے تنظیم اثاثوں کی مالک ہوتی ہے، فاؤنڈیشن کو تجارتی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جانشینی نہیں ہو سکتی اور اس کا عوامی ریکارڈ موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔۔ فاؤنڈیشن زیادہ قانونی ادارہ ہوتا ہے جبکہ ٹرسٹ کو عوامی ڈومین میں رکھنے کیلئے فی الحال کوئی تفصیلی قوانین موجود نہیں ہیں۔۔ ٹرسٹ کے قوانین کو جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے تا کہ اشرافیہ اس کے ذریعہ ٹیکس بھی بچا سکے، تجارت بھی کر سکے اور عوامی سطح پر نیک نامی بھی کما سکے۔ عام آدمی نے صرف ویلفیئر آرگنائزیشن، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کا نام سنا ہوتا ہے، اسے ان کے قانونی فرق کا پتا نہیں ہوتا، وہ اس قسم کے سب اداروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ گھاگ لوگ اس فرق سے آگاہ ہوتے ہیں اور اسے استعمال کرتے ہیں۔

گویا “ٹرسٹ” کے نام پر عوامی ٹرسٹ (اعتماد) حاصل کیا جاتا ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ ٹرسٹ کے نام پر عوامی ٹرسٹ کو دھوکا دیا جا رہا ہو۔

اب آتے ہیں “القادر ٹرسٹ” کی طرف۔
القادر ٹرسٹ کے معاملات کو سمجھنے کیلئے دو الگ الگ کیسوں کا سمجھنا ضروری ہے جو بعد میں جُڑ کر ایک ہو جاتے ہیں۔

*پہلا کیس: ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی*

کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات پوری کرنے کیلئے حکومتِ سندھ نے 2013 میں کراچی کے ضلع ملیر کے ساتھ منسلک ایک نیا شہر قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس کیلئے کراچی-حیدرآباد سپر ہائی-وے پر 17617 ایکڑ زمین مختص کی۔ اس کے لیے “ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی” کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا۔ عوام سے 15000 روپے فی کس کے فارم پر پلاٹوں کی قرعہ اندازی کیلئے رقم اکٹھی کی گئی۔ بعد میں ملک ریاض کو وہاں پر بحریہ ٹاؤن قائم کرنے کا خیال ستایا تو حکومتِ سندھ کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کر دی گئی۔ ملک ریاض نے بلوچستان اور ٹھٹھہ کے ویرانوں میں خریدی گئی سستی زمینوں کا تبادلہ اداروں کی ملی بھگت سے کراچی-حیدر آباد سپر ہائی وے پر کروا لیا اور بحریہ ٹاؤن بڑھتے بڑھتے 30 ہزار ایکڑ پر پھیل گیا۔ 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے سامنے یہ کیس پیش ہوا، چیف جسٹس نے ان زمینی تبادلہ جات پر ریمارکس دیے کہ: “چاندی کے بدلے سونا خریدا گیا”– بحریہ ٹاؤن پر چونکہ آبادی بھی ہو چکی تھی لیکن زمینوں کی الاٹمینٹ اور تبادلہ جات غیر قانونی تھے لہذا اس کا حل عدالت نے یہ پیش کیا کہ قومی خزانے کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے ملک ریاض اسے پورا کرے۔ ملک ریاض نے تصفیے کے بعد 460 ارب روپے قسطوں میں ادا کرنے کا اقرار کیا ۔ اس وصولی کیلئے سپریم کورٹ کے تحت ایک اکاؤنٹ قائم کیا گیا اور طے پایا کہ ملک ریاض 460 ارب روپے کی قسطیں اس اکاؤنٹ میں جمع کروایا کرے گا اور وہاں سے رقم قومی خزانے کو منتقل ہوتی رہے گی۔ ملک ریاض یہ قسطیں ابھی تک جمع کروا رہا ہے۔۔ ۔۔ یہ پہلا کیس ہے۔۔

*دوسرا کیس: لندن منی لانڈرنگ کیس:*

دوسرا کیس پاکستان سے باہر برطانیہ کا ہے۔ 2019 کے اوائل میں ملک ریاض کو برطانیہ کی *نیشنل کرائم ایجنسی* (NCA) نے منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت شاملِ تفتیش کیا کہ ملک ریاض نے پاکستان سے غیر قانونی طور پر منی لانڈرنگ کرتے ہوئے ایک خطیر رقم برطانیہ منتقل کی۔ ملک ریاض نے NCA سے بھی تصفیہ کیا اور 190 ملین پاؤنڈ (تقریبًا 60 ارب روپے) لندن میں NCA کو جمع کروا دیئے۔ NCA کے مطابق یہ رقم چونکہ پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعہ برطانیہ منتقل ہوئی تھی اور یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی لہذا اس رقم کو پاکستان منتقل کر دیا گیا۔ ۔۔ یہ دوسرا کیس ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ دونوں کیس آپس میں جُڑتے کس طرح ہیں ۔۔

*لندن سے رقم کی پاکستان منتقلی اور وفاقی کابینہ کا اجلاس:*

22 نومبر 2019 کو لندن ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ نے ملک ریاض سے وصول کی گئی رقم پاکستان منتقل کرنے کا اعلان کیا۔
اس سے پہلے ستمبر 2019 میں شہزاد اکبر کی ڈورچیسٹر ہوٹل میں ملک ریاض سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں ملک ریاض کی بیٹی کی شادی پر بھی برطانیہ میں ملک ریاض سے ملاقات کی۔ شہزاد اکبر نے ہی NCA سے کہا کہ وہ ملک ریاض سے عدالت سے باہر باہر ہی سمجھوتہ کر لیں۔ اس وجہ سے ملک ریاض برطانیہ میں سزا سے بچ گئے اور رقم دے کر سزا سے جان چھڑا لی۔
رقم کی پاکستان منتقلی کے بعد 3 دسمبر 2019 کو 21 رکنی وفاقی کابینہ کا اجلاس عمران خان کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ جس میں شیریں مزاری، مراد سعید، شیخ رشید، پرویز خٹک، شفقت محمود، زلفی بخاری اور شہزاد اکبر کے علاوہ باقی وزراء موجود تھے. شہزاد اکبر نے ایجنڈے کے آئٹم نمبر 2 کے تحت ایک سیل بند لفافہ پیش کر کے کابینہ سے اسے بغیر کھولے منظور کرنے کو کہا۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق :
اسلام آباد میں جاری کابینہ کے اس اجلاس کے دوران معمول سے کچھ ہٹ کر ہوا۔ وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو ‘ایجنڈا سے ہٹ کر’ ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے۔ یہ معاہدہ کروڑوں پاؤنڈ کے تصفیے کے بارے میں تھا جو برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے حال ہی میں ملک ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ اجلاس میں موجود ایک ذریعے کے مطابق، ”(انسانی حقوق کی وزیر) شیریں مزاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ، ‘جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے تو آخر ہم کس بات کی منظوری دے رہے ہیں؟’ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر اسے کھولا گیا تو اس کے قومی سلامتی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور برطانوی حکومت بھی تحفظات رکھتی ہے”۔
بہرحال آنکھیں بند کر کے اس معاہدے کی منظوری دے دی گئی۔ اور بعد میں کابینہ سیکرٹری سے کہا گیا کہ اس ریکارڈ کو قومی راز اور حساس معاملہ قرار دے کر سِیل کر دیا جائے۔

اس معاہدے کے تحت 60 ارب کی جو رقم پاکستان کے قومی خزانہ میں منتقل ہونا تھی وہ رقم سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں جمع کروا دی گئی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کی بدعنوانی کے سلسلہ میں قسطیں جمع کروا رہا تھا۔ گویا برطانیہ نے جو رقم ملک ریاض سے ضبط کی تھی وہی رقم ملک ریاض کی ملکیت میں واپس دے کر اسے ملک ریاض کا ہی قرضہ اتارنے میں استعمال کیا گیا۔ یہ تھا وہ قومی راز جس کی منظوری انتہائی رازدارانہ انداز میں لی گئی۔ ملک ریاض کی رقم کابینہ کے ذریعہ ملک ریاض کو ہی واپس کر دی گئی۔ جو رقم قومی خزانہ میں آنا تھی وہ ملک ریاض کا ہی قرضہ اتارنے میں کام آ گئی۔۔

*القادر ٹرسٹ کا قیام اور القادر یونیورسٹی:*

پاکستان کا ایک ادارہ “چیریٹی کمیشن گورنمنٹ آف پاکستان” ہے ، اس کے تحت تمام خیراتی ادارے، ویلفیئر آرگنائزیشن، فاؤنڈیشن، ٹرسٹ وغیرہ رجسٹر ہوتے ہیں۔ 26 دسمبر 2019 کو (کابینہ کے اجلاس کے تین ہفتہ بعد) چیریٹی کمیشن کے سب رجسٹرار آفس میں “القادر ٹرسٹ” کی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروائی گئی۔ اس کے ٹرسٹی عمران خان، بشری بی بی، بابر اعوان اور زلفی بخاری تھے۔
22 اپریل 2020 کو رجسٹرار آفس میں لیٹر موصول ہوا کہ ٹرسٹیوں میں سے بابر اعوان اور زلفی بخاری کو ڈراپ کر دیا گیا ہے اور اب صرف عمران خان اور بشری بی بی ٹرسٹی کے طور پر کام کریں گے۔
کچھ عرصہ بعد بحریہ ٹاؤن کی طرف سے موضع برکالا تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں 458 کنال، 4 مرلے، 58 مربع فٹ زمین جس کی مالیت 93 کروڑ روپے ظاہر کی گئی تھی وہ القادر ٹرسٹ کو منتقل کر دی گئی، جبکہ اس کی اصل مالیت تقریبًا 9 ارب روپے بنتی تھی۔ پھر القادر ٹرسٹ، القادر یونیورسٹی کیلیے ڈونر بن گیا اور اس یونیورسٹی کو پرائیویٹ یونیورسٹی کے طور پر القادر ٹرسٹ کے زیرِ انتظام رجسٹرڈ کر لیا گیا۔ بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس پرائیویٹ یونیورسٹی (یعنی اپنی ہی یونیورسٹی) کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ ڈونیشنز بھی خوب اکٹھی ہوئیں۔ یونیورسٹی کا کافی حصہ تیزی سے تعمیر ہو گیا۔ اب اس یونیورسٹی کی ایک سمیسٹر کی فیس ایک لاکھ دو ہزار روپے ہے، ایڈمشن فیس بیس ہزار ہے اور سیکیورٹی فیس دس ہزار ہے۔۔ تصوف اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام پر ایک مہنگی ترین یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔
[اس کے علاوہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بنی گالا میں عمران خان کی رہائش کے قریب ملک ریاض نے زمین کا ایک اور ٹکڑا ٹرسٹ کے نام منتقل کیا اور ٹرسٹ نے اس پر بھی القادر یونیورسٹی کے نام سے محدود سی تعمیرات کی ہیں۔ مزید یہ کہ ملک ریاض نے بنی گالا میں ہی 240 کنال زمین فرح گوگی کے نام پر منتقل کی تھی جو کہ بقول حکومت بشری بی بی کی فرنٹ وومین ہے۔۔ گویا 60 ارب کی سہولت کے بدلے تقریبًا 10 ارب کے اثاثے حاصل کیے گئے]

*نیب کا مقدمہ:*

نیب کے مقدمے کا ماحصل یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کو منتقل ہونے والی زمین دراصل ملک ریاض کی طرف سے رشوت ہے جو اس کو 60 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کے بدلے دی گئی۔
اب نیب نے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ ملک ریاض کو کابینہ میں رازدارانہ طریقہ سے مالی فائدہ پہنچانا ، قومی خزانے کو نقصان پہنچانا اور القادر ٹرسٹ کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے زمین کی منتقلی صرف اور صرف ایک رشوت ہے۔۔ اس کیس کے شوہد اکٹھے کرنا اب نیب کا کام ہے۔ اس رابطے کو ثابت کرنا گو ناممکن نہیں لیکن قانونی طور پر مشکل ضرور ہے ۔

*القادر ٹرسٹ: عوامی ٹرسٹ کا خون:*

نیب اس رشوت کو ثابت کر سکے یا نہ کر سکے لیکن غیر جذباتی غور و فکر کرنے والوں کے نزدیک عمران خان صاحب نے القادر ٹرسٹ کے نام پر عوامی ٹرسٹ کا خون ضرور کیا ہے۔ ۔۔ اس کیس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے:
1- عمران خان کو ملک ریاض سے اتنی ہمدردی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک ریاض جیسے پراپرٹی ٹائیکون کو آخر اتنا ریلیف کیوں دیا گیا؟ کیا باقی کرپٹ لوگوں کی طرح اس کا جواب بھی قومی مفاد ہی ہو گا؟
2- کابینہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر زبردستی رازدارانہ انداز میں حساس معاملہ قرار دے کر اس فیصلہ کو سیل بند کیوں کروایا گیا؟
3- قومی خزانہ کو 60 ارب کا نقصان پہنچانے کا ذمہ دار آخر کون قرار پائے گا؟
4- کابینہ سے خفیہ منظوری کے تین ہفتہ بعد ہی القادر ٹرسٹ کیوں رجسٹرڈ کروایا گیا؟ اس سے پہلے کیوں رجسٹرڈ نہ کروایا گیا؟
5- فاؤنڈیشن کی بجائے ٹرسٹ کیوں رجسٹرڈ کروایا گیا؟
6- ملک ریاض سے ہی اتنی قیمتی زمین ٹرسٹ کیلئے کیوں حاصل کی گئی؟ اور منتقلی میں قیمت کا جھوٹ کیوں بولا گیا؟
7- ٹرسٹی کے طور پر صرف عمران خان اور ان کی بیگم ہی کیوں باقی رکھی گئیں؟ باقی لوگوں کو کیوں فارغ کر دیا گیا؟ اگر یہ ایک سوچا سمجھا پلان نہیں تھا تو اور کیا تھا؟
8- خیراتی یونیورسٹی کی فیس اتنی زیادہ کیوں ہے اور اس کا مالی فائدہ کسے ہو رہا ہے؟

غرض سوالات ہی سوالات ہیں۔ عوامی ٹرسٹ کا خون دن دیہاڑے ہوا ہے۔ قانونی پیچیدگیاں عدالت میں اسے ثابت کر سکیں یا نہ کر سکیں لیکن ہر قدم پر معاملہ ہی مشکوک ہے، نہ صرف مشکوک بلکہ عیاں ہے۔۔۔
اپنے لیڈر کی محبت میں اندھے کارکنان کے علاوہ ہر سوچنے سمجھنے والا خان صاحب کی اس حرکت اور توشہ خانے کی حرکت کو نظر انداز کر کے کلین چٹ نہیں دے سکتا۔ عوامی مقبولیت زیادہ دیر ہر معاملے پر پردے نہیں ڈال سکتی۔ PDM حکومت کی اپنی کرپشن اور دیوالیہ پن کی وجہ سے اگرچہ خان صاحب سب کو دودھ کے دھلے ہوئے لگتے ہیں لیکن وہ اتنے بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں جتنا ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیں خان صاحب سے نہ محبت ہے نہ نفرت۔۔ معاملہ میرٹ کا ہے اور میرٹ پر ہی فیصلہ کرنا حق اور حقیقت ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے ہر باشندے کو معلوم ہے کہ ملک ریاض کے ساتھ راہ و رسم رکھتے والا بندہ کبھی کرپشن سے پاک نہیں ہو سکتا۔ ملک ریاض نے جج، جنرل، سیاستدان سے لے کر سرمایہ دار تک کسی کو کرپٹ کیے بغیر نہیں چھوڑا ۔۔ اسی لیے ڈاکٹر طاہر القادری جیسے اہلِ نظر نے ملک ریاض سے ملاقات تک کرنے سے انکار کر دیا تھا اور دروازے کے اندر بھی داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ کہاں ملاقات سے انکار اور کہاں کابینہ سے خفیہ منظوریاں، قومی خزانے کو نقصان، زمین کی منتقلیاں اور القادر ٹرسٹ کے نام پر عوامی ٹرسٹ کا خون۔۔۔
فاعتبروا یا اولی الابصار۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply