مضبوط فوج کیوں ضروری ہے؟-تحریر/نجم ولی خان

آج کے جدید دور میں کسی بھی ریاست کو متحد قائم رکھنے میں جو چارعناصر اہم اور بنیادی کردارادا کر سکتے ہیں وہ نظریہ، معیشت، ثقافت اور طاقت ہیں۔ اب بھی پاکستان کو قائم رکھنے میں جو نعرہ سب سے زیادہ کام کرتا ہے وہ اسلام کا ہے۔ اسلام کے نام پر ہمیں ہر صوبے اور ہر علاقے سے حمایت ملتی ہے۔

عام پاکستانی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے نام پر ہر وقت جان تک قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور کیا آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اسلام کے بعد اس ملک کی بائنڈنگ فورس صرف اور صرف پاک فوج ہے۔ اگر آپ ان چاروں عناصر پر غور کریں گے ہمیں بہت ساری تکالیف دیتی ہوئی ایک کمزور معیشت ملے گی اورایک دوسرے سے مختلف ثقافتیں۔ ہماری علاقائی زبانیں بھی ایسی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے علاقے میں چلے جائیں تو ایک دوسرے کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔

کئی نادان اعتراض کرتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کا اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ غلط تھا اوراس کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا مگر میں قائداعظم علیہ رحمہ کے کسی بھی فیصلے کو غلط نہیں سمجھتا کیونکہ فیصلے نیت کی بنیاد پر درست یا غلط ہوتے ہیں اور قائداعظم کی نیت پر شک کرنا پرلے درجے کی حماقت اور گھٹیا درجے کے تعصب کے سوا کچھ نہیں۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہمارے پاس کوئی صادق اور امین سیاستدان، جج، جرنیل اور بیوروکریٹ نہیں مگر الحمد للہ بابائے قوم حقیقی معنوں میں صادق بھی تھے اور امین بھی۔ ان کی بات کے سچ اور درست ہونے پر وہ بھی یقین رکھتے تھے جو ان کی انگریزی زبان میں کہی ہوئی بات کو رتی برابر سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ آج میں لاہور سے کراچی جاوں، کوئٹہ یا پشاور، میری منزل کشمیر ہویا گلگت بلتستان، مجھے اردو ہی ان کے ساتھ جوڑتی ہے۔

ریاست کو متحد رکھنے میں سیاسی جماعتیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں جسے ہم نظرئیے کی ایک ذیلی شاخ کہہ سکتے ہیں مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہر صوبے میں ایک دوسرے سے مختلف سیاسی جماعتوں کا زور ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف ہمیں چار میں سے تین صوبوں میں نظر آتی ہے مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس موجودگی کو اسٹیبلشمنٹ نے ہی یقینی بنایا تھا یعنی روایتی سیاسی جماعتوں کی نفی کرنے کی پالیسی نے لوگوں کو اس کی طرف مائل کیا۔

مجھے بہت خوشی ہوتی اگر عمران خان تعمیر اور ترقی کے نقیب ہوتے مگر وہ نفرت، تعصب، تنقید اور تخریب کے خوگر ہیں اور اس نے انہیں ریاست کی طاقت کی بجائے کمزوری بنا دیا ہے۔ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ ان پر قومی سلامتی کے حوالے سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی شے کو اپنے مفاد کے لئے نذر آتش کروا سکتے ہیں۔ وہ اپنی ذاتی انا اور سیاسی مفاد کے اسیر ہیں اوراس سے باہر آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

جب ہم معیشت اور ثقافت کے بعد کسی سیاسی جماعت کو بھی قومی یکجہتی کی وجہ نہیں قرار دے سکتے تو اس کے بعد طاقت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ آپ اگر خوابوں اور خیالوں کی باتیں کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ طاقت ریاست کو متحدنہیں رکھ سکتی مگر میرے ساتھ ہندوستان کی مثال موجود ہے جہاں ہر طرح کے اختلافات موجود ہیں اور علیحدگی کی تحریکیں طاقتور رہی ہیں مگر ان پر صرف اور صرف طاقت کے ذریعے ہی قابو پایا گیا ہے۔ ایک یا دو نہیں، وہاں علیحدگی کی چھیاسٹھ سے زائد تحریکیں موجود ہیں۔

صرف آسام میں علیحدگی کی چونتیس باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جوسوا سو سے زائد اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ میں اس طریقہ کار سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا مگر بھارت نے خالصتان کی تحریک کا دھڑن تختہ طاقت سے ہی کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ بنانے کے بعدوہاں بھی طاقت سے ہی ردعمل کو دبایا ہے۔

ہمیں حقیقت پسند ہو کے دیکھنا ہوگا کہ اگر ہماری فوج کی طاقت کو اس طرح گہنا دیا گیا کہ اس کے مضبوط ترین مرکز پر چند سو بلوائی حملہ کرکے اسے آگ لگا دیں یا چند ہزار لوگ کینٹ میں گھس کے اس کا وہ حال کریں کہ جیسے دشمن کی فوج نے کیا ہو اور پاکستان کی فوج صرف اس لئے جواب نہ دے کہ ان کا تعلق پاکستان ہی ایک سیاسی جماعت سے ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔

کیا ہم فوج کو کل کسی سندھو دیش، آزاد بلوچستان یا افغانستان کے جڑے کسی پختونخوا کی سازش کو روکنے کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ عمران خان نے اپنے حامی لوگوں کے ذریعے فوج کو وہاں لے جانے کی سازش کی ہے جہاں مکتی باہنی نظرئیے نے بنگال میں پاک فوج کو لے جا کر کھڑا کر دیا تھا اور اس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔

یہ افواہیں اڑائی جار ہی ہیں کہ بحری یا ہوائی افواج کے سربراہوں نے کسی میٹنگ میں شرکت سے انکار کیا یا کسی اہم کور کے سربراہ نے اختلاف۔ یہ سب کچھ وہی کر رہے ہیں جو پاک فوج کو کمزور کرکے ایک مرتبہ پھر اکہتر کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں۔ اس مرتبہ مسئلہ یہ نہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت کر رہی ہے بلکہ اس دھڑے کا مسئلہ یہ ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کیوں نہیں کررہی۔ اسے گود لے کر ایوان وزیراعظم میں پہلے کی طرح کیوں نہیں پہنچا رہی۔

شجاع پاشا، ظہیرالاسلام اور فیض حمید جیسے لوگ پرویز الٰہی کی گواہی کے مطابق لاڈلے کی نیپیاں کیوں نہیں بدل رہے سو بہت سارے فکری مغالطے پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ ہماری پارلیمنٹ ہو، جوڈیشری ہو، بیوروکریسی ہو، ہم اپنے کسی بھی ادارے کوپروفیشنل ازم اور کارکردگی کے حوالے سے ماڈل کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکتے اور اگر ایسے میں فوج بھی تقسیم اور تباہ کر دی گئی تو پھر ہمارے پاس باقی کیا رہ جائے گا۔

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم اپنی ہمسائیگی میں انڈیا، افغانستان، ایران اور چین ہونے کی وجہ سے دنیا کی نظر میں صرف اور صرف ایک سیکورٹی اسٹیٹ کے طور پر ہی اہمیت رکھتے ہیں ورنہ نہ ہماری معیشت اس قابل ہے اور نہ ہی ہمارے ٹیلنٹ کہ دنیا اس پر توجہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کا سربراہ ہو یا سفیر، وہ ہمارے آرمی چیف کو ملنے کو ترجیح دیتا ہے۔

ہماری معاشی اور سیاسی نااہلی یہ ہے کہ ہم دنیا کی اس عینک کو تبدیل بھی نہیں کرسکتے جسے پہن کو وہ ہمیں دیکھتی ہے۔ ایسے میں اگر ہماری فوج بھی تباہ کر دی گئی، اس کی طاقت اور اعتماد ختم کر دئیے گئے تو ہم تہی دامن ہوجائیں گے لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ عمران خان صرف اور صرف اپنے ذاتی، سیاسی مفادات کے لئے ایک خوفناک کھیل، کھیل رہے ہیں تواس کے پیچھے ایک پورا پیرا ڈائم ہے۔

میں فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہوں اور اس وقت سوال یہ ہے کہ اپنے آئینی کردار کی طرف لوٹنے والی ایک ذمے دار فوج کو کون دوبارہ متنازع بنا رہا ہے۔ کون اسے مجبور کر رہا ہے کہ وہ ری ایکٹ کرے، اس کے ساتھ فریق بنے۔ آئی ایس پی آر کا یہ اعلامیہ پاک فوج کے تحمل اور تدبر کی علامت ہے کہ اس بڑی سازش کے باوجود اس کی طرف سے مارشل لا لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں دعا گو ہوں کہ فوج میں وہ ہمت اور حوصلہ رہے کہ وہ اپنے اس اعلان پر قائم رہے اور یہ دعا بھی ہے کہ وہ واقعی ایک مثالی ادارہ رہے، پاکستان کی یکجہتی کی ضامن رہے ورنہ اس مرتبہ سازش ہماری سوچ سے بھی زیادہ بڑی ہے، وہی سازش جس کی نشاندہی حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کرکے جا چکے ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply