یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہےکہ احمدجاویدعمل کے میدان میں عرصہ دراز سے مسلسل شکست سے دوچار نظریے کے پرچارک ہیں۔اس کا بیّن ثبوت خود ان کے لیکچر ہیں جو یوٹیوب پر موجود ہیں۔ مذہب کے حوالے سے ان کا شائد ہی کوئی لیکچر ایسا ہو جس کا ابتدائیہ اعترافِ شکست پر مشتمل نہ ہو۔بطور نمونہ احمدغزالی پر ان کے لیکچر سے چند ایک اقتباسات پیش ہیں۔
“ہمارے عملی انحطاط کی نوعیت ہمہ گیر اور کُلـّی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری تہذیب کا کوئی ایک خاص طبقہ اس زوال اور انحطاط میں مبتلا ہو اور دیگر کلاسز اس سے محفوظ ہوں۔ ذہن کا جو بھی مذہبی یا دنیاوی رول ہے، عقل اور فکر کا جیسا بھی سماجی، اخلاقی، روحانی یا سیاسی اظہار ہے وہ سب کا سب امتِ مسلمہ میں پسماندگی کی انتہائی حد کو چھو رہا ہے۔ اور ہمیں ایسا لگنے لگا ہے کہ ہماری مجموعی ذہنی ساخت زندگی کو لازماً درکار ادراکات کے قابل نہیں رہی اور زندگی کو یقیناً مطلوب اظہار کے لائق بھی نہیں رہی۔”
“تو ہماری صورت حال ہے کہ ہمارے ادراک کی سطح ہماری بینائی کی حدودں تک رہ کے رہ گئی ہے۔ اور ہمارے اظہار کی سطح ہماری دیکھی ہوئی چیزوں کو بیان کرنے کے قابل بھی نہیں رہی۔ یہ جو ایک انتہائی مکینیکل اظہار اور ادراک کی سطحوں پر بھی جو ہماری بے بسی اور عاجزی ہے وہ زندگی کے ہر شعبے سے واضح اور ظاہر ہے۔ہماری بنیادی تعلیم کے تمام ادارےذہن کو ایک حیوانی حافظے سے زیادہ سمجھ کر پروان نہیں چڑھا رہے۔ ایک بالکل مشینی حافظہ بنا کر علم کو اس میں ٹھونسا جارہا ہے۔اور معلومات کو محض چند فارمل شناختوں کی حد تک محدود کرکے رٹوایا جارہا ہے۔ مطلب ہم جس چیز کو بھی جانتے ہیں وہ صرف دیکھے جانے کی حد تک جانتے ہیں۔ سمجھے جانے کی حد تک ہم کسی ایک چیز کو بھی نہیں جانتے۔”
” یہ ہمارے علمی انحطاط کی جڑ ہے کہ اشیاء ہمارے ذہن کی متصرفانہ گرفت سے باہر نکل گئیں اور پھر رفتہ رفتہ اب صورتحال یہ پہنچی کہ ہمارا ذہن شے کے تابع ہونے کے قوانین پر بھی پورا نہیں اتررہا اور بخدا نہیں پورا اتر رہا۔ اور عام معمول کی اشیاء اپنی غلامی کے لیے جن شرائط کو مسلط کرتی ہیں، ہم ان شرائط کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہے۔”
اپنے لیکچر بعنوان “ویسٹرن کلچر اینڈ سوسائٹی” میں مسلمانوں کی صریح ناکامی کی وجوہات وہ یوں بیان کرتے ہیں:
“سرِدست میں یہ بات زور دے کر اس لیے کہہ رہا ہو ں کہ ہماری موجودہ حالت تک پہنچنے میں ایک بڑا سبب ہماری انر ولگیریٹی کا ہے۔ ہم بڑے سے بڑے آئیڈیا کو ولگرائز کرنے کے بِلاشرکتِ غیرے چیمپئن ہیں۔ ہر بڑا خیال ہماری تحویل میں آکر دوکان میں سڑنے والی کوئی چیز بن کے رہ جاتا ہے۔ تو اپنی طرف یہ سفاکانہ نظر ڈالے بغیر ہم مغرب کو کوس تو سکتے ہیں لیکن اس کی یقینی ہلاکت خیزی کا سامنا نہیں کرسکتے۔ مطلب وہ جس موجہء ہلاکت میں خود کو بدل رہا ہےاسلام اور مسلمانوں کے لیے ہم اس طغیانی کا سامنا کرنے کی نہ نیت رکھتے ہیں نہ صلاحیت رکھتے ہیں۔”
جبکہ اسی لیکچر میں وہ مغربی تہذیب کی کامیابی کو یوں بیان کرتے ہیں:
“مغربی نشاۃ الثانیہ کا ایک سلبی پہلو یہ ہے کہ اس نے اپنا پہلا فیزدین کی Prevailing تعبیر ، دین کی بنیاد پر ہونے والی سماجی طبقہ بندی اور دین کے نام پر کلیم اور ایکسرسائز کی جانے والی مطلق العنان اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے برپا کیا۔ جب ان کے راستے کی یہ رکاوٹ دور ہوگئی یعنی دورِ وسطیٰ جو ہے وہ گذر گیا، تو اس کے بعد انہوں نے ایک پوزیٹو پراجیکٹ شروع کیا جو پراجیکٹ تھا پراجیکٹ آف اینلائٹنمنٹ۔ تو اینلائٹنمنٹ پراجیکٹ کا پہلا مرحلہ تھا نشاۃ الثانیہ جو معروف ہے یعنی رینے ساں جس میں مغرب نے اپنی دستیاب قوتوں کے ذریعے سے ایک تہذیب کی تشکیل کا عمل شروع کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس تہذیب اور ورلڈ ویو کومؤثر طرح سے تکمیل پانے کے لیےجن علمی اور عملی وسائل کی ممکنہ ضرورت تھی، انہوں نے وہ بھی فراہم کرنے شروع کیے۔ اور اس میں بھی ایک صدی کے اندر اندر اتنی بڑی کامیابیاں بہرحال حاصل کرلیں جس کے نتیجے میں ویسٹرن سویلائزیشن اپنی بنیادی تعریفات کے ساتھ ایک موجود حقیقت کے طور پر دنیا کے سامنے حاضر ہوگئی۔۔۔۔۔
تہذیبوں کی تشکیل میں دو طرح کی قوتیں کارفرما ہوتی ہیں۔جن کو اگر کہیں کہ آفاقی قوتیں اور انفسی قوتیں، جن والا ایک سٹرکچر ہے۔ اس کی ہر پریکٹس ایک تھیوری سے براہِ راست زندہ اور نامیاتی ربط رکھتی ہے اور اس کی ہر تھیوری اپنی پروڈکشن کے بے شمار شواہد رکھتی ہے۔ یعنی تھیوری کو موجود رہنے کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ پروڈکٹو ہو، وہ محض مجرد نظریہ نہ ہو۔ وہ محض ادب اور شاعری میں کام آجانے والاکوئی تخئیل نہ ہو بلکہ اس میں نتیجہ خیزی کا ایک نقد عُنصر پایا جائے۔ تو ویسٹ نے ذہن کی جو اعلیٰ درجے کی تھیورائزیشن کو نتیجہ خیز اور پروڈکٹو بنانے میں کامیابیاں حاصل کیں اور اس کے نتیجے میں مطلب یہ انسان پر اس کی بعض صلاحیتیں غالباً پہلی بار منکشف ہوئیں۔ یعنی انہوں نے کومپلیکس تھیریز کو بھی عمل میں لانے کے مؤثر اسالیب دریافت کرکے دکھا دیے۔ یعنی جو تھیوریز ذہن کے لیے پیچیدہ تھی، اس پیچیدہ تھیوری میں زبردستی کی عامیانہ سادگی پیدا کیے بغیر اس کی تمام تہہ داری کے ساتھ اس کے عمل میں آنے کے راستے کھول دیے۔ “
اپنے ایک لیکچر بعنوان ” مذہبی ذہن پر مسلط بے بسی کے اسباب” میں یوں نوحہ کناں ہیں:
“سبھی جانتے ہیں، سبھی بھگت رہے ہیں، سبھی بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے یہاں یعنی مسلم دنیا میں بلا استثنا کچھ صورتیں ایسی پیدا ہوگئی ہیں، معاشرتی سطح پہ، نفسیاتی سطح پہ، ، سیاسی پہلو سے، اور علمی جہت سے، جنہوں نے ہمیں بالکل جیسے لاچار کر رکھا ہے اور ایک احساسِ کمتری کو، ایک پیراسائٹل سائکالوجی کو ہماری کل پونجی بنا کے رکھا ہوا ہے۔”
ایک اور لیکچر بعنوان “دین اور موجودہ سوشل سائنسز” میں جدید علوم کے مقابل مذہب کی بے بسی کو یوں بیان کرتے ہیں:
” آج علم کا کوئی بھی شعبہ ہو، یعنی علم بعنوان سائنس ہو، بعنوان طبیعات ہو، علم بمعنی سماجیات ہو، یعنی چاہے وہ سائنسی علوم ہوں، چاہے سماجی علوم ہوں، علم کی یہی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ان میں سے ہر قسم کو مغرب نے دین کے لئے اجنبی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ آج دنیا کو چلانے والا، انسانی ذہن کی تربیت کرنے والا، انسان کے عملی مقاصد کو پورا کرنے والاکوئی علم، کوئی نالج ڈسپلن ایسا نہیں ہے، تو پھر اس پہ جیسے تاکید سے کہہ رہا ہوں کہ بلا استثناء کوئی جدید علم ایسا نہیں ہے، جو مذہبی ذہن اور دینی شعور کو اپنے اندر داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتا ہو۔”
جیسا کہ درج بالابیانات سے صاف ظاہر ہے کہ جدید علم کے مقابلے میں مسلمان اور ان کا مذہبی نظریہ بالکل بے دست و پا ہو چکےہیں۔ اب اس صورتحال میں احمدجاوید صاحب مذہب کے بچاؤ (نہ کہ پھیلاؤ) کا جو تیربہدف نسخہ پیش کرتے ہیں، وہ ایمان یا تعلق باللہ ہے۔یعنی خدا کے احکامات کی انتہائی خلوص کے ساتھ تعمیل و اطاعت۔
سادہ دل لوگوں کو اور خصوصاً احمد جاوید صاحب کے متاثرین کو یہ نسخہ بڑا آئیڈیل دکھائی دے گا، مگر یہ نسخہ پیش کرتے وقت احمد صاحب اس حقیقت سے صرفِ نظر کر لیتے ہیںکہ مذہبی فہم میں چودہ صدیوں میں پیدا ہوچکے اختلافات کی بنیاد پر بننے والے فرقہ ورانہ گروہ ایک دوسرے کی ایمان کی ڈیفینیشن کو ہی درست نہیں مانتے بلکہ دوسروں کے خود سے مختلف ایمان کی بنیاد پر ہی انھیں جہنم کی نوید سناتے ہیں۔ یہ کوئی ہزار دو ہزار لوگوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کم و بیش ڈیڑھ ارب مسلمان نفرت انگیز گروہوں میں منقسم ہیں جن میں سے بمشکل چند ہزار ہوں گے جو احمد جاوید صاحب کے نام اور پیغام سے آگاہی رکھتے ہوں گے۔ مسلم امہ کے ننانوے اعشاریہ نو فیصد افراد تک احمد صاحب کے تعارف اور پیغام کی عدم رسائی کو ایک المیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
المیہ محض اتنانہیں کہ ان کے پیغام کی عدم رسائی کا دائرہ اتنا بے انت ہے، بلکہ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے حلقہء ارادت میں موجود مختصر سی تعداد کے ایمانی خلوص بارے بھی شدید عدم اطمینان رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک لیکچر میں وہ اپنے حلقے میں باقاعدگی سے شریک ہونے والے نوجوانوں کے تقویٰ کے خام ہونے پر شدید دکھی اور مایوس دکھائی دیتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ایک ایمانی فرد کا جو ماڈل ہے، اگر ساری زندگی کی محنت کے باوجود وہ اس کے مطابق چند سو افراد کو بھی ڈھالنے میں ناکام ہیں تو ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے ان کی اپیل کیونکر اہم ہوسکتی ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کہیں ان کا سوچا ہوا یہ ماڈل انسانی فطرت کے ناقص فہم کا نتیجہ تو نہیں، جو فرد سے اس کی فطرت سے ٹکرانے والے مطالبات کا تقاضہ کرتا ہو؟؟؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں