• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مولوی نگار عالم-اور بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا گئی/نذر حافی

مولوی نگار عالم-اور بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا گئی/نذر حافی

مولوی نگار عالم بڑے جوشیلے مولوی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مشال خان کے قاتلوں کو وہ بھی ہیرو کہا کرتے تھے۔ بالآخر گذشتہ دنوں اُن کا خون بھی رزقِ خاک ہوا۔ مردان کے علاقے ساولڈھیر میں اُنہیں اُسی الزام میں مار دیا گیا، جو مشال خان پر لگایا گیا تھا۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جیسے مشال خان کے قتل کی حقیقی وجہ کچھ اور تھی، ویسے ہی مولوی نگار عالم کے قتل کا اصلی سبب بھی کچھ اور ہے۔ دونوں واقعات میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا گئی۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بڑی مچھلی انتہائی سفاک ثابت ہوئی۔ مرنے والے مولوی صاحب کی بے گناہی کے سارے ثبوتوں کے باوجود کسی عالمِ دین نے بھی اُن کے حق میں آواز بلند نہیں کی۔ مارنے والوں نے جس انداز میں مارا ہے، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قاتل پہلے سے ہی موقع کی تاک میں تھے۔ مقتول مولوی صاحب کی باتوں میں دور دور تک گستاخی کا کوئی پہلو ہی نہیں تھا۔

ویسے بھی ایک کٹر مولوی صاحب پر توہین مذہب کا الزام لگانا کوئی آسان اور سادہ کام نہیں۔ ایک مولوی صاحب پر توہینِ مذہب کا الزام کوئی عام آدمی لگا ہی نہیں سکتا۔ پھر فوری طور پر گھونسوں، لاتوں اور ڈنڈوں کی جان لیوا برسات بھی یونہی نہیں ہوسکتی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عام لوگوں کی کارروائی نہیں بلکہ قاتل اتنے بااثر ہیں کہ اُن کا ہر جگہ کنٹرول ہے۔ ظاہر ہے کہ سب کچھ طے شدہ پلاننگ کا حصّہ تھا، اسی لئے تو ردِّعمل میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ شواہد کے مطابق حملے کے لئے پی ٹی آئی کے پروگرام کو منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ چونکہ پروگرام پی ٹی آئی کا تھا، اس لئے پی ٹی آئی کے سارے سیاسی مخالفین نے بھی اس گھناونے جرم کے خلاف بولنے کے بجائے، صرف پی ٹی آئی کے خلاف بولنے پر ہی اکتفا کیا۔ کسی بھی اہم شخصیت نے اس افسوسناک واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ تک نہیں کیا۔

واضح رہے کہ مولوی نگار عالم کوئی روشن فکر، سیکولر، لبرل یا ملحد شخص نہیں تھے بلکہ ایک کٹر دیوبندی مولوی تھے۔ پہلے پہل وہ دیوبندیوں کے حیاتی فرقے کے مبلغ تھے۔ انہوں نے کچھ ہی عرصے میں حیاتی فرقے کو مسترد کرتے ہوئے دیوبندیوں کے ہی مماتی فرقے کو اختیار کر لیا۔ مماتی فرقہ دراصل حیاتی فرقے سے بھی زیادہ بنیاد پرست ہے۔ مماتی فرقے کا عقیدہ ہے کہ انبیاء و رسل نیز حضرت محمد رسول اللہﷺ کا جسم محض بے جان اور مردہ ہے، انبیاء کی ارواح کا اجساد مطہرہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، برزخ میں جسمانی حیات نہیں ہے۔ نبی ؐسے دعا اور سفارش کی درخواست کرنا شرک ہے، وغیرہ وغیرہ۔ مماتی فرقے کے اندر ایک سخت ترین اور سب سے زیادہ کٹر اور شدت پسند دھڑا جمعیت اشاعت التوحید والسنہ کے نام سے ہے۔ یہی سخت ترین شدت پسند دھڑا دیوبندیوں میں پنج پیری کہلاتا ہے۔

ضلع صوابی کے ایک گاؤں میں ایک دیوبندی مدرسے کے بانی مولانا طاہر پنج پیری المعروف امام الموحدین شیخ القران مولانا محمد طاہر پنج پیری رحمه الله کی مناسبت سے اس دھڑے کو پنج پیری کہتے ہیں۔ مولانا طاہر پنج پیری کے بیٹے محمد عامر خان پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق افسر ہیں۔ انہیں میجر عامر کے نام سے شہرت حاصل ہے اور یہ کوئی عام میجر نہیں بلکہ آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے منصوبہ ساز ہیں۔ آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے لئے آپ نے پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کے کچھ افسران اور پیپلز پارٹی کے چند سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے پہلے دور حکومت میں ان کی حکومت کے خلاف یہ آپریشن کیا تھا۔

جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے اس آپریشن کا ذکر اپنی کتاب “اقتدار کی مجبوریاں” میں کیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی خود نوشت “ڈاٹر آف دی ایسٹ” میں اس آپریشن مڈ نائٹ جیکال پر روشنی ڈالی ہے۔ اس وقت مولانا طاہر پنج پیری کے صاحبزادے میجر محمد عامر خان بے نظیر بھٹو کے خلاف یہ سازشی بیانیہ تشکیل دے کر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کر رہے تھے کہ “بے نظیر بھٹو کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ امریکہ ان کا حامی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پاکستانی فوج بھی انہیں پسند نہیں کرتی۔ جب وہ اقتدار سے باہر ہو جائیں گی تو ان کا شوہر بھی انہیں چھوڑ دے گا۔” یہ آپریشن ایوان میں بارہ ووٹوں سے ناکام تو ہوگیا لیکن جمہوری اقدار کو اس سے سخت دھچکا لگا۔

اس پنج پیری مدرسے کے تربیت یافتہ لوگ دیوبندیوں کی تمام شدت پسند تنظیموں کو لیڈ کرتے ہیں۔ آن دی ریکارڈ شواہد کے مطابق کالعدم سپاہِ صحابہ و لشکرِ جھنگوی، طالبان و القاعدہ کے دھڑوں، مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کے سرکردہ لوگ، تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ، باجوڑ ایجنسی کے مولوی فقیر محمد، خیبر ایجنسی کے امیر منگل باغ اور جامعہ تعلیم القرآن واقع راجہ بازار راولپنڈی کا تعلق دیوبندیوں کے اسی گروہ سے ہے۔ پاکستان میں جہاں جہاں جمعیت اشاعت التوحيد والسنت کے نام سے کوئی دفتر یا مرکز ہے، وہ دراصل اسی پنج پیری گروہ کا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پی ٹی آئی کے اندر تو مولوی نگار عالم کی کسی حوالے سے کوئی رقابت یا مخالفت نہیں تھی۔ تاہم مولوی نگار عالم نے کچھ عرصے سے دیوبندیوں کے حیاتی فرقے کو ترک کرکے اُس کی مخالفت شروع کر دی تھی، پھر اُن کے مماتی فرقے اور بلا کے شدت پسند دھڑے پنج پیری سے علیحدگی اختیار کرکے بریلویوں کی طرح روحانیت و تعویز و دم درود بھی شروع کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ پنج پیری گروہ کے نزدیک یہ کوئی معمولی انحراف نہیں۔ مولوی نگار عالم نے اپنے جوشیلے مزاج کی وجہ سے کسی قسم کی احتیاط کو نہیں اپنایا۔ ویسے بھی اُن کی گھات میں بیٹھے لوگ پی ٹی آئی کی ریلی میں موجود ہونگے، یہ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ کسی دِن اُن پر بھی مشال خان والا الزام لگے گا۔۔۔ اور یوں آناً فاناً ایک مرتبہ پھر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply