دوڑ پیچھے کو/کبیر خان

اللہ پوچھ نہ کرے، مبد فیض سے اجمل نیازی کو بے نیازی بھرکے عطا ہوئی تھی ۔ محبّی امجد اسلام امجد اورعطا الحق قاسمی کے تابڑ توڑ اور تیکھے جملے ناصرف سالم ہضم کر جاتے تھے بلکہ بسااوقات اپنی گرہ سے اضافی نون مرچ بھی چھڑک کر انجوائے کرلیتے تھے۔ مرحوم ایک بار چھوٹے قاسمی صاحب کے ساتھ راولاکوٹ میں ہمارے مہمان ہوئے۔ وہ والدصاحب کے ساتھ کچہری کرنے لگے۔ رسوم و رواج اور ہمارے قبیلائی سسٹم کو کریدنے پر والد صاحب نے اُنہیں گفتگومیں در آنے والے پہاڑی لفظ ’’ببّ‘‘کے معنی بتائے۔ تھوڑی دیر کے بعد والد صاحب بیٹھک سے باہر گئے تو اجمل نیازی نے راقم کو مخاطب کیا:
’’توُ مَنّے یا نہ منّے سردارا !، اساں تینوں ببّ منّیا‘‘

ٹی وی پر حالاتِ حاضرہ کا حشر نشردیکھ کر ہمیں اجمل نیازی مرحوم بے طرح یاد آئے ۔ اُنہوں نے اپنی ایک تصنیف میں واقعہ بیان کیا تھا جو کچھ یوں تھا کہ ایک بار اُن کےعلاقہ میں فوجی بھرتی ہو رہی تھی ۔ دیکھا دیکھی مقامی ’’مَلُک‘‘ کا لاڈلا بیٹا بھی مقابلہ میں اُتر گیا۔ دیگر امیدواروں کے مقابلے  میں وہ بھر کے پَلا ہوا تھا۔ سرسری طبّی معائنہ کے بعد فزیکل ٹیسٹ کے طور پر امیدواروں کو تین میل کی دوڑمیں شریک ہونا تھا۔ امیدواروں کو بتادیا گیا تھا کہ دوڑ میں آگے نکلنے والے تیس جوانوں کو بھرتی کر لیا جائے گا۔ اور بس۔۔ دوڑ میں دوسو سے زیادہ جوان شریک تھے۔ دوڑ کے آغاز میں سب ہی تقریباً ساتھ ساتھ تھے۔ پھر بتدریج ٹولیاں سی بنتی چلی گئیں ۔ ملک صاحب کے بیٹے والی ٹولی سب سے مختلف اور منفرد تھی۔ پندرہ بیس ’’کمّی ‘‘ شریکِ سفر تھے، کوئی شربت پانی، کوئی پھل فروٹ اور کوئی تولیے ، آرام دہ جوتے اٹھائے ساتھ دوڑ رہا تھا۔ ملک صاحب کا فرزند ارجمند جہاں اشارہ کرتا،رُک کرکوئی پسینہ پونچھتا، کوئی مٹھی چانپی کرتا ۔ اِدھرسے ٹھنڈے مفرح شربت کا گلاس بڑھتا،اُدھر سے انگور اور آم ۔ ایک سمت سے سردائی کا پیالہ،دوسری طرف سے ٹھنڈیائی کا پوّا۔ وہ تازہ دم ہو کر پھر سے دوڑ میں شریک ہو جاتا۔ دوڑ میں گاؤں کا مریل سا نائی بھی شریک تھا ۔ جو دس قدم دوڑتا ، پھر بیٹھ کر اُسے سانسیں استوار کرنا پڑتیں ۔ ملک کا صاحبزادہ پیچھے سے پہنچتا اور اُسے چیلنج کرتا۔۔۔ ’’فِیکے ! وَت کٹینا ئیں ‘‘(میں پھر تم سے آگے نکل رہا ہوں) ۔ ساتویں بار پیچھے سے آکرجب اُس نے چیلنج کیا۔۔۔۔۔ ’’وت کٹینا ئیں ‘‘ تو فیکا تڑخ گیا۔۔۔۔۔ ’ملک!کاٹنے کے لئے تمہیں میں ہی ملا ہوں ،وہ سارے جو کبھی کے خاتمے کی لکیر اُلانگ چکے ہیں ، ملکوں کے رشتہ دار ہیں؟۔اور یہ جو تولیہ اور جوتے چُکے  ہیں ، دوڑ میں تمہیں کس قانون کے تحت کاندھوں پر اٹھائے بھاگتے ہیں؟ ‘‘
واقفانِ حال سے روایت ہے کہ پچھلے دنوں پنجاب میں اسکول ٹیچرز کی بھرتی ہو رہی تھی، ٹیسٹ انٹرویو کے دوران ممتحن نے ایک پرچی بردارٹائیگر سے پوچھا:
’’وتّ شِنا! حساب کتاب جانڑدا ایں۔۔۔۔؟‘‘
’’ڈاہڈا‘‘ ، امیدوار نے جواب دیا
’’وتّ ایں چا ڈسّ، ڈُوں تے ڈُوں کتنے تھی سن۔۔۔۔؟‘‘(دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں؟)
’’ڈوُں تے ڈوُں۔۔۔۔۔ ‘‘سوچ بچار کے بعد امیدوار نے کہا، ۔۔۔۔’’ ڈاہ ‘‘
’’ ولا ڈوُں ۔۔۔۔؟‘‘(جمع دس؟)
’’ڈاہڈا۔۔۔‘‘
’’تھوڑاجھِکّا تھِی۔۔۔‘‘ (کچھ کم کرو)ممتحن نے کہا
’’وت آخر آخرچھِی۔۔۔‘‘(چھ) امید وار نے ٹنٹا چکا دیا
’’ قدرے پاس‘‘ ممتحن نے امیدوار کے ہاتھ میں سبز رنگ کی پرچی دیکھ کر اتفاق کر لیا ۔ اُمیدوار بھی خوش ، ممتحن بھی کانوں تک خوش۔ ثابت ہوا کہ ’’جِھکا تھِینا ‘‘ ہی ڈاہڈی عقلمندی ہے۔
’جھِکّا تھِینا‘تو ہمیں بھی آتا ہے لیکن ’بے خصمی چُکّ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اور
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

Advertisements
julia rana solicitors

واضح ہو کہ بیان کردہ اس واقعہ کا کسی مَلک سے تعلق ہے نہ اُس کے لاڈلے سے۔ اس کا تعلق اجمل نیازی مرحوم و مغفور کی تصنیف سے ہے۔ جس کا کوئی اور ایڈیشن شاید ہی کبھی چھپے گا۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ ہمارے ہاں دوڑیں ایسے ہی لگا کریں گی۔۔۔ اور سیکنڈ ، تھرڈ لاسٹ آنے والے منصفوں کی آشیرباد سے پہلے نمبر پر آتے جاتے رہیں گے۔ فیقوں کے لئے حسبِ معمول کوئی تھاں ہے نہ استھان۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply