ہمارانظام ِحکومت اور معاشرہ ایک خارش زدہ کُتا ہے۔اس کی جِلد ختم ہو گئی ہے اور گوشت نکل آیا ہے۔ دھوپ سے گوشت جلتا ہے تو اس کی بدبو ہر طرف پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔مکھیاں اس پہ بھنبھنا رہی ہیں اور کتا تکلیف کی وجہ سے پاگل ہُوا جا رہا ہے۔اس نے اپنے پھٹے ہوئے زخم خوردہ جسم کوکاٹ کاٹ کر لہو لہان کر دیا ہے۔ جب وہ اپنے جسم کو کاٹ کاٹ کر تھک جاتا ہے تو پھر وہ بھاگنا شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک، ایک سڑک سے دوسری اور پھر تیسری ۔ بھاگتے بھاگتے اسے شام ہوجاتی ہے اور پھر رات کے کسی پہر وہ اَدھ مُوا ہوکر گر جاتا ہے۔ خواب میں وہ راولپنڈی چلا جاتا ہے۔وہ پنڈی کی بڑی بڑی عمارتوں ، ہوٹلوں اور ریستورانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔طرح طرح کے کھانوں کی خوشبواسے بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔وہ ریستوران کے پچھواڑے چلا جاتا ہے۔ جہاں کچرے کا ایک بڑا ڈرم رکھا ہوا ہے۔ جس کے ارد گرد کئی ایک کُتے جمع ہیں۔ موٹے تازے، دُبلے پتلے، لاغر اور کمزور۔ موٹے اور تگڑے کتے کھا رہے تھے، جبکہ کمزور کُتے ان کی بدخواہی کررہے تھے۔
وہ کافی دیر ایک دوسرے کے ساتھ صلاح مشورہ کرتے رہے ، ا ن میں سے دو چار کتے تیزی سے چلتے ہوئے مختلف سمتوں میں نِکل گئے۔ کافی دیر کے بعد جب وہ لوٹے تو ان کے ساتھ کتوں کا ایک غول تھا۔ یہ سب کے سب بھوکے تھے ۔ وہاں پر پہلے سے موجود کتوں نے ان کا استقبال کیا۔ ایک دوسرے سے ملنے کے بعد وہ بیٹھ گئے۔ ان کی میٹنگ شروع ہو گئی۔میٹنگ ‘ون پوائنٹ’ ایجنڈے پر تھی ۔ ایجنڈے کا یہ ون پوائنٹ تھا ‘‘بھوک ’’۔ گویایہ کتے ایک عالمی مسئلے پر میٹنگ کر رہے تھے۔ بھوک تو بھوک ہوتی ہے، اپنی ہو یا پرائی۔ بھوک ایک سانجھی آفت ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے پیٹ اپنے اپنے ہیں۔ جس کا پیٹ بھرتا ہے، بھوک بھی اسی کی مٹتی ہے۔ دراصل پیٹ بھی سانجھے ہونے چاہئیں تھے۔ اتنے سانجھے تو ضرورہوتے کہ اگر ایک کھاتا توکم از کم دیکھنے والوں کی بھوک مٹ جاتی۔مگر المیہ یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوک اور بڑھ جاتی ہے۔
میٹنگ میں پورے زور و شور سے غوروفکر ہو رہا تھا۔ ہر کوئی اپنی بھوک کے بقدر رائے دے رہا تھا۔مگر اس رائے پر عمل کے راستے میں ہر کسی کی جان حائل تھی۔کچھ کتے سیانے تھے ۔ انہوں نے اپنی جان کو سامنے رکھتے ہوئے مشورہ دیا۔کچھ انتہائی لاغر کتوں کا خیال تھا کہ یہ سب فضول اور وقت کا ضیاع ہے۔ وہ ایک ایک کرکے میٹنگ سے نکل گئے۔بہت دیر بعد انہیں یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ کچرے کے ڈرم کے پاس جمع ہو کر کھانے پینے والے تگڑے کتے تعداد میں بہت کم ہیں۔ لہٰذا انہیں مار کر بھگایا جا سکتاہے۔مگر یہ ہمت کاکام تھا۔ جو اِن میں سے کسی کے پاس نہ تھی۔آدھا دن گزر گیا تھا، تگڑے کتے پیٹ بھر کھانے کے بعد آرام کر رہے تھے۔ جبکہ بھوکے کتوں کی بھوک سے ان کے پیٹ جل رہے تھے۔بھوک بعض اوقات ایسے مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں وہ کمزوری کی بجائے طاقت بن جاتی ہے۔ایک کتا کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اب تو حالت یہ ہے کہ ہم بھوک کی وجہ سے مر جائیں گے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ روٹی کے لیے لڑتے ہوئے تگڑے کتوں کے ہاتھوں مارے جائیں۔
یہ بات کئی کتوں کے دل کو لگی ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھااور آنکھوں ہی آنکھوں میں طے کر لیا کہ لڑیں گے۔ بس دوسرے ہی لمحے لاغر کتوں نے سوئے ہوئے تگڑے کتوں پر ہلّہ بول دیا۔ وہ چند ایک تھے اور یہ پورا غول۔ بھوک نے اپنی طاقت دکھائی اور لاغر کتوں نے تگڑے کتوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ وہ پورا دن کچرے کے ڈرم پر بھوکوں کا قبضہ رہا۔ مگر رات کے وقت جب بھوکے کتے پیٹ بھر کھانے کی وجہ سے بے ہوش پڑے تھے،تگڑے کتے ایک فوج کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوئے۔ چند ایک جان سے گئے اور باقی زخمی ہو کر بھاگ نکلے۔اب پورے شہر میں صف بندی شروع ہو گئی۔دو بدو لڑائیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔کبھی ایک ٹیم غالب تو کبھی دوسری۔ تگڑے کتے روز روز کی لڑائیوں سے تنگ آگئے۔ انہوں نے سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل سوچنا شروع کردیا۔طے یہ ہوا کہ دو ٹیمیں بنائی جائیں اور آپس میں ایک نمائشی لڑائی لڑی جائے۔ صبح ایک ٹیم غالب آکر کھا پی لے اور شام کو دوسری۔ بھوکے کتے لڑائی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہیں گے کہ ایک دن یہ آپس میں لڑ لڑ کر مر جائیں گے اور پھر ہماری باری آئے گی۔ پھر ہم میں سے ہارنے والی ٹیم لاغر کتوں کو اپنے ساتھ ملا کر جیتنے والی ٹیم پر حملہ کرے گی۔ اور کچھ بچا کھچا ان کو دے کر انہیں مستقل طور پر اپنا ہم نوا بنالے گی۔ ایسے ہی دوسری ٹیم بھی کرے گی۔
یوں تگڑے کتوں نے لاغر کتوں کو تقسیم کر دیا۔ ان کی نمائشی جنگیں اب لاغر کتے لڑنے لگے۔ یعنی لاغر کتے ہی لاغر کتوں کو مارنے لگے۔ اور تگڑے کتے کھا پی کر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔لڑائیوں کے اس ماحول میں لاغر کتوں کی ہر دو ٹیموں میں اندرونی اختلافات شروع ہو گئے۔ جو کتے زیادہ لڑتے، بھونکتے انہیں زیادہ حصہ ملتا ۔اوروہ آگے نکل جاتے۔ کئی ایک تو باقاعدہ تگڑے کتوں میں شمار ہونے لگے۔ جو کم بھونکتے ان کی کوئی خاص عزت نہیں تھی۔ انہیں بھیک کی صورت کچھ دے دیا جاتا۔
خارش زدہ کتا بھی زیادہ بھونکنے سے عاجز تھا۔ اس لیے وہ کمزور و ناتواں ہی رہا۔ کسی تگڑے کتے کو اس پر ترس آتا تو وہ سفارش پراسے آٹا لے دیتا۔ یوں اس کی گزر بسر ہو رہی ہے۔ مگر اس نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ وہ اپنی خارش کا علاج کیوں نہیں کروا رہا؟ وہ کب تک سفارش کا آٹا کھاتا رہے گا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں